سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مسلمان پر صدقہ کرنا لازمی ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر کوئی اس کی استطاعت نہ رکھے یا صدقہ نہ کر سکے تو؟ فرمایا: ”پھر اپنے ہاتھ سے کمائے اور اس کمائی سے خود کھائے اور صدقہ کرے“، راوی نے کہا: پھر بھی صدقہ نہ کرے تو؟ فرمایا: ”پھر کسی حاجت مند فریادی کی مدد کرے“، کہا بتایئے اگر یہ بھی نہ کر سکے تو؟ فرمایا: ”اچھی بات کا حکم کرے“، عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کر سکے تو؟ فرمایا: ”برے کام سے باز رہے اس کا یہی صدقہ ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2782]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2789] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1445] ، [مسلم 1008] ، [نسائي 2537] ، [أحمد 395/4] ، [الطيالسي 180/1، 857] ، [شرح السنة 1643] ، [الأدب المفرد 306]
وضاحت: (تشریح حدیث 2781) بخاری میں ہے: اچھا کام کرے، اور مسند الطیالسی میں ہے: اچھی بات کا حکم کرے اور برے کام سے باز رہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو باب على كل مسلم صدقہ کے تحت لا کر صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے، جب مالی صدقہ کی توفیق نہ ہو تو جو بھی کام اس کے قائم مقام ہو سکے وہی صدقہ ہے، مثلاً اچھے کام کرنا اور دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچانا، جب اس کی بھی توفیق نہ ہو تو کسی مصیبت زدہ کی فریاد رسی کر دینا، اور یہ بھی نہ ہو سکے تو کوئی اور نیک کام کر دینا، مثلاً یہ کہ راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کر دیا جائے، آخری درجہ یہ کہ برائی کو ترک کر دینا جس سے شریعت نے منع کیا ہے، یہ بھی ثواب کے کام ہیں اور اس میں اس شخص کے لیے تسلی دلانا ہے جو افعالِ خیر سے بالکل عاجز ہو۔