عبداللہ بن یزید الخطمی سے مروی ہے جو کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے کہا: ہم قیس بن سعد بن عبادہ کے گھر گئے، مؤذن نے نماز کے لئے اذان دی، ہم نے قیس سے کہا: اٹھئے ہمیں نماز پڑھایئے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جس قوم کا میں امیر نہیں ہوں اسے نماز نہیں پڑھا سکتا۔ یہ سن کر ایک شخص جو کم مرتبہ نہ تھے - ان کو عبداللہ بن حنظلہ ابن الغسیل کہا جاتا تھا - انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالک اپنی سواری کا زیادہ حق دار ہے، اور اسی طرح بستر پر بیٹھنے کا (صاحبِ بستر زیادہ حق دار ہے)، اور اس کا کہ آدمی اپنے مکان پر امامت کرائے۔“ یہ سن کر قیس بن سعد نے اپنے غلام سے کہا: اٹھو اور ان کو نماز پڑھا دو۔ [سنن دارمي/من كتاب الاستئذان/حدیث: 2701]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2708] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن شواہد کے پیشِ نظر اس روایت کو تقویت ملتی ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 65/2، 2363] ، [وأحال إلى أحمد و ذكره البخاري معلقًا فى اللباس قبل حديث 5966 صاحب الدابه أحق بصدره فقط]
وضاحت: (تشریح حدیث 2700) اس حدیث سے اسلاف کی آپس میں ایک دوسرے کی عزت و احترام اور زیارت و ملاقات ثابت ہے، یہ کہ سواری پر صاحبِ سواری آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے الا یہ کہ صاحبِ سواری خود کسی کو آگے بٹھائے یا آگے بیٹھنے کی اجازت دے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا قثم بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے آگے بٹھایا [بخاري 5966] اور سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کو بھی جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے، اور جانور و سواری میں موٹر کار وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسی طرح صاحبِ دار کے بیٹھنے کی جگہ پر صاحبِ دار ہی بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہے، اور اپنی مسجد یا نماز کی جگہ گھر و خیمہ وغیرہ میں پڑھانے کا زیادہ حقدار صاحبِ دار ہی ہے۔ صحیح حدیث ہے: «لَا يُؤَمُّ (يَؤُمَّنَّ) الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ، إِلَّا بِإِذْنِهِ»[رواه مسلم: 673 و أصحاب السنن وغيرهم] ۔ ایک بار امامِ حرم شیخ محمد السبیل ہماری مسجد میں تشریف لائے، سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ بھی موجود تھے، خاکسار نے امامِ حرم سے درخواست کی کہ نماز آپ پڑھایئے، انہوں نے انکار کیا تو میں نے شیخ محترم سے عرض کیا: آپ سفارش کر دیجئے کہ وہ نماز پڑھائیں، جواب دیا کہ میں کیوں کہوں، تمہارا حق ہے نماز پڑھانے کا، ہاں تم خود کہو قبول کر لیں تو بہتر نہ قبول کریں تو ان کی مرضی۔ یہ سب کچھ اس حدیث کے پیشِ نظر تھا: «أَنْ يَؤُمَّ فِيْ رَحْلِهِ» «تغمده اللّٰه بواسع رحمته» ۔ اس طرح ایک بار امام مسجدِ نبوی شیخ علی الحذیفی تشریف لائے تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا اور شیخ محترم نے سفارش کرنے سے انکار کر دیا تھا۔