سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب سورہ بقرہ کے آخر میں ”سود“ کی آیت اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور اس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پڑھ کر سنایا۔ پھر شراب کی تجارت کو حرام کر دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2605]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2611] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 459، 2226] ، [مسلم 1850] ، [أبوداؤد 3490] ، [نسائي 4679] ، [ابن ماجه 3382] ، [أبويعلی 4467]
وضاحت: (تشریح حدیث 2604) «خمر»(شراب) کی تعریف، اس کا حکم اور حد کا بیان کتاب الاشربہ اور کتاب الحدود میں گذر چکا ہے، یہاں اس باب میں شراب کی تجارت کا بیان ہے، جب شراب حرام ہے تو اس کی تجارت بھی حرام ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیات میں: «﴿وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ .....﴾ [البقرة: 275-280] » اس کا ذکر ہے، یعنی تجارت و سوداگری حلال ہے لیکن سودی لین دین اور حرام چیز کی تجارت جیسے شراب و خنزیر وغیرہ حرام ہے، اور شراب کی حرمت کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے جو بہت پہلے نازل ہوئی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر عمر میں ربا کی آیات کا ذکر کرتے ہوئے پھر شراب کی حرمت کو دہرایا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے۔
عبدالرحمٰن بن وعلہ نے کہا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مردار کے چمڑے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو دباغت دینے سے وہ پاک ہو جاتی ہے“، اور میں نے ذمی لوگوں کے ساتھ شراب کی خرید و فروخت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما) نے کہا: بنوثقیف یا دوس قبیلے کے ایک آدمی نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شراب کی ایک مشک ہدیہ کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اے ابوفلاں! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ الله تعالیٰ نے شراب کو حرام کر دیا ہے؟“ عرض کیا: نہیں، اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم، فرمایا: ”تو سن لو الله تعالیٰ نے اسے (شراب کو) حرام کر دیا ہے“، چنانچہ وہ شخص اپنے نوکر کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے کہا: جاؤ اسے حزوره (جگہ کا نام) لے جاؤ اور بیچ دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوفلاں! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جس ذاتِ پاک نے اس کا پینا حرام کیا اسی نے اس کو بیچنا بھی حرام کر دیا ہے۔“ راوی نے کہا: چنانچہ اس نے حکم دیا اور وہ شراب کی مشک میدان میں بہا دی گئی۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2607]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 2613] » اس حدیث کے رجال ثقات ہیں اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1579] ، [مالك فى الموطأ فى الاشربه 12] ، [أبويعلی 2468] ، [ابن حبان 4942] ۔ نیز اس کی تخریج «كتاب الأضاحي، باب الاستماع بجلود الميتة» میں گزر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2605 سے 2607) اس حدیث سے شراب کی خرید و فروخت کی حرمت ثابت ہوئی، اگر بیچنا جائز ہوتا تو زمین پر کیوں بہایا جاتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شراب کا سرکہ بنانا بھی جائز نہیں۔ نیز یہ کہ مردہ جانور کا چمڑا نکال کر اسے دباغت دینے سے وہ پاک ہو جاتا ہے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔