سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک (بیع ختم کردینے کا) اختیار ہے جب کہ دونوں جدا نہ ہوں، پھر اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف بتا دی تو ان کی تجارت (بیع شراء) میں برکت ہوگی، لیکن اگر دونوں نے جھوٹ بولی اور کوئی بات چھپا رکھی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ختم کردی جائے گی۔“[سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2583]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2589] » اس روایت کی سند سعید بن عامر کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن دوسری صحیح اسانید سے بھی مروی ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2079] ، [مسلم 1532] ، [أبوداؤد 3459] ، [ابن حبان 4904] ، [معرفة السنن و الآثار للبيهقي 10965]
وضاحت: (تشریح حدیث 2582) اس حدیث میں تجارت کے بہترین اصول بیان کئے گئے ہیں، اور بتایا گیا ہے کہ سوداگروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مال کا حسن و قبح سب ظاہر کر دیں تاکہ خریدنے والے کو بعد میں شکایت کا موقع نہ ملے، اور بائع و مشتری نہ جھوٹ بولیں نہ جھوٹی قسم کھائیں کیونکہ اس سے ان کی برکت جاتی رہے گی۔ اس سے سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی برائی بھی معلوم ہوئی۔ اس حدیث میں خیار یا اختیار کی بات ذکر کی گئی ہے اور اس کی دو صورتیں یہاں ظاہر ہوتی ہیں: ایک تو خیارِ مجلس یعنی جب تک جدا نہ ہوں بائع اور مشتری دونوں کو خریدنے یا بیچنے کا، یا اس بیع کو توڑ دینے کا حق حاصل ہوگا۔ دوسرا خیارِ شرط ہے اور وہ یہ کہ دونوں یہ شرط کر لیں کہ اتنی مدت تک سودے کا باقی رکھنے یا واپس کرنے کا اختیار رہے گا، اگر خریدار اس کو واپس کرنا چاہے تو فروخت کرنے والے کو بغیر کسی حیلہ و حجت کے واپس لینا ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی خیار کی اور کئی صورتیں ہیں جو بائع اور مشتری کے درمیان طے ہو جائیں، مثلاً یہ کہ سامان میں کوئی عیب ہوا تو وا پس کرنا ہوگا، یا یہ کہ جو چیز یا جانور پسند ہوگا لے لوں گا باقی واپس کر دوں گا، تو ان صورتوں میں ان شروط کو پورا کرنا ہوگا۔
اس سند سے بھی مثلِ سابق حدیث مروی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2584]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف سعيد بن عامر لم يذكر بين من سمعوا سعيد بن أبي عروبة قديما ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2590] » تخریج اور شرح اوپر گذر چکی ہے۔