سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض غزوات میں ایک عورت ملی جس کو قتل کیا گیا تھا، چنانچہ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے سے منع فرما دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب السير/حدیث: 2498]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2505] » اس روایت کی سند جید اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3014، 3015] ، [مسلم 1744] ، [أبوداؤد 2668] ، [ترمذي 1569] ، [ابن ماجه 2841] ، [أحمد 23/2، 76، 122] ، [طبراني 383/12، 13416] ، [شرح معاني الآثار 221/3]
وضاحت: (تشریح حدیث 2497) یہ اسلام کا نظامِ رحمت اور پیغمبرِ اسلام، محسنِ انسانیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و شفقت ہے کہ عورت کی اتنی تکریم کی کہ مدِ مقابل ہونے کے باوجود اس کے قتل سے منع فرما دیا، اسی طرح بے قصور بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا۔
سیدنا اسود بن سریع رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں نکلے اور مشرکین کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئے، لوگوں نے انہیں قتل کرنے میں جلد بازی کی یہاں تک کہ ان کے بچے تک مارنے شروع کر دیئے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا بات ہے، کچھ لوگوں کو قتل و غارتگری اس حد تک لے گئی کہ وہ بچوں کو بھی قتل کرنے لگے؟ خبردار بچوں کو قتل نہ کرو۔“ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دہرایا۔ بعض روایات میں «لَا تَقْتُلُنَّ» کا لفظ ہے یعنی ”ہرگز ہرگز بچوں کو قتل نہ کرو۔“[سنن دارمي/من كتاب السير/حدیث: 2499]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2506] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 132] ، [موارد الظمآن 1658]
وضاحت: (تشریح حدیث 2498) ان دونوں احادیث سے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت ثابت ہوئی، حقوقِ نسواں اور بچوں کے استحصال کی دہائی دینے والے ذرا ان تعلیمات پر غور کریں۔