سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شرکت کرتے تھے، اس وقت ہمارے ساتھ درخت کے پتوں کے سوا کھانے کے لئے کچھ بھی نہ ہوتا تھا، اس سے ہمیں بکریوں کی طرح اجابت ہوئی تھی یعنی ملی ہوئی نہیں ہوتی تھی (میگنیوں کی طرح اجابت ہوتی) لیکن اب بنواسد میرے اندر عیب نکالتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو میں بالکل محروم اور بے نصیب ہی رہا اور میرے سارے کام، اعمالِ صالحہ برباد ہوگئے۔ (سمر اور ورق الحبلہ درخت کے پتوں کو کہتے ہیں)۔ [سنن دارمي/من كتاب الجهاد/حدیث: 2452]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2459] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3728] ، [مسلم 2966] ، [ترمذي 2365] ، [أبويعلی 732] ، [الحميدي 78]
وضاحت: (تشریح حدیث 2451) ہوا یہ تھا کہ بنو اسد نے امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی چغلی کھائی تھی کہ وہ صحیح طرح نماز نہیں پڑھتے، لوگوں کے درمیان صحیح وقت پر فیصلے نہیں کرتے وغیرہ، لیکن یہ سب غلط تھا، اور جس شخص نے یہ الزامات لگائے تھے اس کے لئے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے بددعا کی جو قبول ہوئی، اور مرتے دم تک اس شخص کا پیچھا نہ چھوڑا، وہ کہا کرتا تھا: ہے مجھے سعد کی بددعا لگ گئی، اللہ والوں کو ستانے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ابتدائے اسلام میں کس قدرمشقتیں برداشت کیں ہیں کہ کھانے کے لئے کچھ نہ ہوتا، اور پتے چبا کر، چھالیں چوس کر زندگی گذارتے تھے۔ «(رضي اللّٰه عنهم وأرضاهم).»