سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا: اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر جہاد کا تذکرہ کیا تو کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی جو جہاد سے افضل ہو (یعنی جہاد کو افضل ترین بتایا) سوائے فرائض کے، ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول الله! بتایئے اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں مار ڈالا جائے تو کیا اس کی غلطیاں معاف کر دی جائیں گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، جو صبر کے ساتھ اجر کی نیت سے اگر بڑھتے ہوئے مارا گیا پیچھے ہٹتے ہوئے نہیں (اس کی ساری خطائیں معاف کردی جائیں گی) قرض کے علاوہ، اس کا شہید ہونے کے بعد بھی اس سے مواخذہ کیا جائے گا جیسا کہ جبریل علیہ السلام نے مجھے ابھی بتایا ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الجهاد/حدیث: 2449]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2456] » تخریج اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1885] ، [ترمذي 1712] ، [نسائي 3156، له شاهد عند أبى يعلی 1857] ، [الحميدي 429]
وضاحت: (تشریح حدیث 2448) امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس سے معلوم ہوا کہ نیّت خالص ہو (تو شہادت تمام گناہوں کے لئے کفارہ ہے)، یعنی خالص اللہ تعالیٰ کے واسطے لڑے، نہ ملک اور مال اور دولت کے لئے، نہ قوم کی ناموری یا عزت کے واسطے، ہاں اس کا قرض معاف نہ ہوگا، اور اسی طرح تمام حقوق العباد بھی معاف نہ ہونگے، پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کو مستثنیٰ نہیں کیا، پھر جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی وقت بتا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر دیا۔ (وحیدی)۔ شہادت ہو مطلوب مقصودِ مومن نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی