سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے بیٹے کے ساتھ مدینہ آیا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا نہیں تھا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوہرے کپڑوں میں باہر تشریف لائے، جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا، میں آپ سے قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟“ میں نے کہا: ربّ کعبہ کی قسم یہ میرا لڑکا ہے، فرمایا: ”کیا تمہارا ہی بیٹا ہے؟“ عرض کیا: جی ہاں، میں اسکی شہادت دیتا ہوں (یا آپ گواہ رہئے یہ میرا بیٹا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تمہارا بیٹا تمہارے گناہ و جرم کا ذمہ دار نہ ہوگا اور نہ تم اس کے گناہ و جرم کے ذمہ دار ہو گے۔“[سنن دارمي/من كتاب الديات/حدیث: 2425]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2433] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4495] ، [نسائي 4847] ، [ابن حبان 5995] ، [موارد الظمآن 1522]
وضاحت: (تشریح حدیث 2424) «أَشْهَدُ بِهِ» میں احتمال ہے کہ صیغہ طلب ہو اور اس کا معنی ہوں کہ آپ گواہ رہیں کہ میرا بیٹا میری صلب سے ہے، اور اس کا بھی احتمال ہے کہ صیغہ متکلم کا ہو اور وہ ثابت کر رہے ہوں کہ یقیناً یہ میرا بیٹا ہے، اس سے دراصل مقصود یہ تھا کہ جرائم کی ضمانت جاہلیت میں اس طور پر لازم ہوتی تھی کہ والد کی جگہ بیٹا اور بیٹے کی جگہ باپ پر عائد کر دی جاتی تھی، اس اصول کی طرف سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ تھا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خیال و نظر کی تردید کر دی اور فرمایا کہ وہ تیرے جرائم، گناہ کا ذمہ دار نہیں اور تو اسکے جرائم پر جواب دہ نہیں۔ یعنی اگر جرم کا ارتکاب و صدور اس کی جانب سے ہوگا تو اس کی پاداش میں تجھے مواخذے میں گرفتار نہیں کیا جائے گا اور اس کی ضمان تیرے سر نہ ہوگی، اسی طرح اس کے برعکس اگر وہ مرتکبِ جرم ہوگا تو اس ارتکاب کا جرم اس پر پڑے گا، اس کے جرم کی باز پرس تم سے نہ ہو گی، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: «﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ [الإسراء: 15] » یعنی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اپنا بوجھ آپ ہی اٹھانا ہوگا، جو کرے گا سو بھرے گا۔ (مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ)۔
سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد سے فرمایا: ”کیا یہ تمہارا بیٹا ہے؟“ عرض کیا: جی، کعبہ کے رب کی قسم، فرمایا: ”سچ کہتے ہو؟“ عرض کیا: جی ہاں سچ میں میں اس کی شہادت دیتا ہوں (کہ یہ میرا بیٹا ہے)، ابورمثہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری والد صاحب سے مشابہت اور میرے والد کی قسمیہ شہادت پر مسکرا کر ہنس پڑے اور فرمایا: ”بیشک تمہارا یہ بیٹا نہ تمہارے جرم کا ذمہ دار ہوگا اور نہ تم اس کے جرم کے ذمہ دار ہوگے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: ترجمہ: (کوئی کسی کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھائے گا)(سورة الانعام: 164/6 و إسراء: 15/17)۔ [سنن دارمي/من كتاب الديات/حدیث: 2426]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2434] » تخریج اس حدیث کی اوپر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2425) سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ کا نام حبیب بن حیان ہے، دوسرے نام بھی ذکر کئے گئے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات حجۃ الوداع میں ہوئی، اس روایت میں ہے کہ سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے ساتھ آئے اور انہوں نے اپنے الفاظ میں روایت کیا، پہلی روایت میں ہے کہ سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کے ساتھ آئے اور قصہ بیان کیا، بہرحال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قصاص و عتاب میں مجرم کے بدلے میں کسی اور کو نہیں پکڑا جائے گا، حتیٰ کہ باپ کے بدلے میں بیٹا، اور بیٹے کے بدلے میں باپ سے بھی مواخذہ نہ ہوگا، اگر کہا جائے کہ شارع نے پھر قتلِ خطا اور قسامت کی صورت میں دیت کا بار عصبہ پر کیوں ڈالا ہے، تو اس کا جواب ہے کہ یہ بوجھ نہیں بلکہ تعاون و امداد ہے جو بھائی چارے اور برادری کی بنیاد پر بتقاضائے طبیعت بوقتِ ضرورت کی جاتی ہے، اور برادری کے افراد بخوشی ادا کرتے ہیں کیونکہ ہر ایک اپنے قریبی عزیز کی غمگساری میں برضا و رغبت شریک ہونا فخر سمجھتا ہے، اور انسانی تمدن و معاشرت اسی کا تقاضا کرتا ہے کہ آج اگر کسی پر افتاد پڑ گئی ہے تو اس کا سہارا بنے، کل وہ بھی اس کا شکار ہو سکتا ہے۔ (مبارکپوری رحمہ اللہ)۔