سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی قسم کھائے پھر ان شاء اللہ کہہ لے تو اس نے استثناء کر لیا۔“(یعنی اب اگر قسم پوری نہ کرے تو بھی اس پر کفارہ لازم و واجب نہ ہوگا۔)[سنن دارمي/من النذور و الايمان/حدیث: 2379]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2387] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1531] ، [نسائي 3802] ، [ابن ماجه 2106] ، [ابن حبان 4339] ، [موارد الظمآن 1183] ، [الحميدي 707]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی کام پر قسم کھائے اور ساتھ ہی ان شاء الله بھی کہے تو اس کو اختیار ہے چاہے تو قسم پوری کرے اور چاہے تو پوری نہ کرے“(یعنی قسم توڑ دے)۔ [سنن دارمي/من النذور و الايمان/حدیث: 2380]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2388] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ تخریج پیچھے گزر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [ابن حبان 4342] ، [موارد الظمآن 1184]
وضاحت: (تشریح احادیث 2378 سے 2380) اس حدیث کی رو سے قسم کھانے والا ساتھ ہی اگر ان شاء اللہ کہہ دے تو ایسی قسم توڑ دینے پر کفارہ نہیں ہوگا، کیونکہ قسم کو جب مشیت الٰہی سے مقید کر دیا جائے تو وہ قسم بالاتفاق منعقد نہیں ہوتی، لہٰذا جب منعقد ہی نہیں ہوئی تو پھر اس کے توڑنے پر کفارہ کا کیا سوال۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: اللہ کی قسم! میں قریش سے جہاد کروں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہا نہیں کیا حالانکہ قسم کا تقاضہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور جہاد کریں، کیونکہ ان شاء اللہ کہہ دیا تھا اس لئے جہاد نہیں کیا، اور کفار بھی نہیں دیا، اگر کفارے سے بچنا ہو تو قسم کے ساتھ ہی ان شاء اللہ کہنا چاہئے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر کچھ دیر کے بعد ان شاء اللہ کہا تو اختیار نہیں ہوگا اور قسم توڑنے پر کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا۔