سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت شوہر کے علاوہ کسی بھی قیمت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے، وہ شوہر پر چار ماہ دس دن تک سوگ میں رہے گی اور (اس دوران) میں نہ وہ رنگین کپڑا پہنے گی، یمنی چادر کے علاوہ، نہ سرمہ لگائے گی اور نہ خوشبو استعمال کرے گی، یہاں تک کہ حیض سے فارغ ہو جائے، جب غسل کر لے تو مقامِ مخصوص پر کست و اظفار لگا سکتی ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2323]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «هذا حديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2332] » یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 313، 5242] ، [مسلم 938] ، [ابن حبان 4305]
وضاحت: (تشریح حدیث 2322) «ثَوْبَ عَصْبٍ» سے مراد یمنی چادر ہے جو رنگین ہوتی تھی، اس کو سوگ والی عورت پہن سکتی ہے۔ «كست» اور بعض روایات میں «قسط» ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہے اور یہ خوشبودار لکڑی ہوتی ہے جس سے دھونی لی جاتی ہے۔ غالباً عود کی لکڑی ہے جو ہندوستان سے عرب لائی جاتی تھی، «اظفار» خوشبو کی ایک قسم ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس خوشبو کے استعمال کی رخصت ایامِ حیض کے بعد غسل کرنے والی عورت کے لئے ہے تاکہ مکروہ مہک کا ازالہ ہو سکے، اس کا استعمال خوشبو کے لئے نہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کا خاوند انتقال کر جائے اس کو عدت کے دوران اچھے کپڑے پہننے، سرما لگانے، خوشبو استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ وہ گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتی ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے، اور یہ سب بہت سے مصالح کے پیشِ نظر ہے۔ اسلام نے عورت کے ساتھ بہت نرمی برتی ہے، دورِ جاہلیت میں کسی عورت کا شوہر فوت ہو جاتا تو اسے ایک الگ کوٹھری میں بند کر دیا جاتا، وہ مینگنیاں جھاڑتی، پھینکنی اور گندے کپڑوں میں بہت بری حالت میں ایک سال رہتی تھی، جیسا کہ احادیثِ صحیحہ میں اس کا تذکرہ ہے، لہٰذا عورت کو صبر سے کام لے کر اسلام کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔