سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دو دفعہ دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2288]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2297] » یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے لیکن صحیح مسلم وغیرہ میں صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1450] ، [أبوداؤد 2063] ، [ترمذي 1150] ، [نسائي 3310] ، [ابن ماجه 1941] ، [أبويعلی 4710] ، [ابن حبان 4227]
وضاحت: (تشریح حدیث 2287) «المصة: مص» سے ماخوذ ہے جس کے معنی چوسنے کے ہیں، ایک دو مرتبہ چوسنا یعنی تھوڑا سا پینا، اور ایک روایت میں ہے ایک دفعہ پینے یا دو مرتبہ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، «رضعة» اور «املاجة» بھی «مصة» کی طرح ہم معنی ہیں، ان کی کیفیت یہ ہے کہ بچہ جب ماں کے پستان کو منہ میں لے کر چوستا ہے پھر بغیر عارضہ کے اپنی خوشی و مرضی سے پستان کو چھوڑ دیتا ہے اسے «رضعة» یعنی ایک بار کا دودھ پینا یا چوسنا کہتے ہیں۔ پستان کا چھوڑنا کسی عارض کی بنا پر جیسے سانس لینے کے لئے، یا معمولی سا آرام حاصل کرنے کے لئے، یا کسی اور چیز کے لئے جو اسے دوسری طرف مشغول کر دے پھر جلدی ہی دوبارہ پینا یا چوسنا شروع کر دے، اس طرح ایک یا دو مرتبہ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ بعض علماء کے نزدیک تین بار پینے سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے، وہ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ تفصیل آگے آ رہی ہے۔
سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے ایک عورت سے شادی کی اور میرے پاس دوسری بیوی بھی تھی، تو اس پہلی بیوی نے کہا کہ میں نے اس نئی دلہن کو ایک یا دو بار دودھ چوسایا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بار یا دو بار چوسانے سے حرمت نہیں ہوتی۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2289]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2298] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1451] ، [نسائي 3308] ، [أبويعلی 7072]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: قرآن پاک میں یہ حکم نازل ہوا کہ دس بار دودھ پینے سے حرمت ہو جاتی ہے (یعنی نکاح حرام ہو جاتا ہے)، پھر یہ حکم پانچ بار دودھ پینے سے منسوخ کر دیا گیا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، اس وقت پانچ کی معروف تعداد قرآن میں پڑھی جاتی تھی۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2290]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2299] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1452] ، [أبوداؤد 2062] ، [ترمذي 1150] ، [نسائي 3307] ، [ابن ماجه 1944]
وضاحت: (تشریح احادیث 2288 سے 2290) معلومات سے مراد محقق و ثابت شدہ ہے، یعنی جب رضاعت مشکوک ہو تو حرمت ثابت نہیں ہوگی، اور قرآن میں پڑھی جانے کا مطلب یہ ہے کہ پانچ کی تعداد کا نسخ اتنی تاخیر سے ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا واقعہ پیش آ گیا اور بعض لوگ پھر بھی ان پانچ کی تعداد کو قرآن سمجھ کر تلاوت کرتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب ان کو نسخ کا حکم معلوم ہوا تو اس سے انہوں نے رجوع کر لیا اور سب متفق ہو گئے کہ اب اس کی تلاوت نہیں کی جائے گی۔ رضاعت کا حکم کتنا دودھ پینے سے ثابت ہوتا ہے، اس میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ حکم دودھ تھوڑا پیا ہو یا زیادہ ثابت ہو جاتا ہے یعنی اس میں قلیل و کثیر کی کوئی قید نہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ رضاعت کا حکم تین بار پینے سے ثابت ہوتا ہے، دو دفعہ پینے سے نہیں، جیسا کہ حدیث «لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ» سے واضح ہوتا ہے۔ تیسرا قول ہے کہ پانچ بار بچہ دودھ پی لے تب ہی رضاعت اور حرمت ثابت ہوتی ہے، یہی قول زیادہ قوی اور راجح ہے۔ اس باب میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی آخری حدیث میں نسخ کا ذکر ہے جو قرآن پاک میں تین انواع پر مشتمل ہے۔ پہلا یہ کے حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہو گئے جیسے دس مرتبہ دودھ پینے والی آیت۔ دوسرے یہ کہ تلاوت منسوخ ہوگئی لیکن حکم باقی ہے جیسے پانچ مرتبہ دودھ پینے کی آیت اور آیت الرجم «الشيخ والشيخه إذا زنيا فارجموهما.» اور تیسرے یہ کہ حکم منسوخ ہوگیا لیکن تلاوت ابھی باقی ہے اور قرآن پاک میں ایسی بہت سی آیات ہیں جیسے آیتِ وصیت: «﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ .....﴾ [البقره: 240] » وغیرہ آیات قرآنیہ۔