سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا جو آپ کو بہت بھا گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین سیدہ سوده رضی اللہ عنہا کے پاس آئے جو خوشبو کشید کر رہی تھیں اور ان کے پاس عورتیں بیٹھی تھیں، وہ عورتیں چھوڑ کر چلی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خواہش پوری کر لی پھر فرمایا: ”جو کوئی بھی کسی ایسی عورت کو دیکھے جو اس کا دل لبھائے تو وہ اپنی بیوی کے پاس چلا جائے (یعنی اس سے اپنی شہوت پوری کرے) کیونکہ بیوی کے پاس بھی (قضائے حاجت کے لئے) وہی ہے جو اس عورت کے پاس ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2252]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2261] » اس حدیث کی سند حسن ہے۔ حوالہ دیکھے: [التاريخ الكبير للبخاري 69/5] ، [شعب الايمان للبيهقي 5436] ، [وله شاهد عند مسلم 1403] ۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک عورت پر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے، وہ چمڑے کو دباغت دینے کے لئے مل رہی تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حاجت ان سے پوری کی اور پھر صحابہ کرام کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ ”عورت جب سامنے آتی ہے تو شیطان کی صورت میں آتی ہے، اور جب جاتی ہے تو شیطان کی صورت میں جاتی ہے، لہٰذا تم میں سے کوئی جب کسی عورت کو دیکھے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے پاس جا کر اس سے صحبت کرے، اس عمل سے اس کے دل کا خمار و خیال جاتا رہے گا۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2251) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس عورت پرنظر پڑنا الله تعالیٰ کی طرف سے تھا تاکہ امّت کو ایسی حالت میں اپنے اوپر کنٹرول کی پاکیزہ تعلیم دی جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاً و فعلاً امّت کو اس کی تعلیم دی کہ عورت کو دیکھ کر آدمی فتنے میں مبتلا نہ ہو، اور یہ حقیقت ہے کہ شیطان عورت کے آگے پیچھے لگا رہتا ہے اور غیروں کی نظر میں بد صورت و گندی عورت کو اچھی صورت میں دکھاتا ہے تاکہ وہ جادۂ حق اور صراطِ مستقیم سے ہٹ کر فتنہ میں مبتلا ہو جائے۔ ایسے میں انسان کو چاہیے کہ اللہ کی پناہ طلب کرے اور جائز طریقے سے اپنی حاجت پوری کرے، اور شیطان کو، نفسِ امارہ کو کچل دے، ایسا نہ ہو کہ شیطان اسے ہی ذلیل و رسوا کرا دے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرد اگر اپنی بیوی سے دن میں جماع کرے تو کوئی حرج نہیں، اور بیوی کے لئے ضروری ہے کہ اگر گھر کے کام کاج میں ہو تو سب کچھ ترک کر کے شوہر کی دعوت پر لبیک کہے اور چوں چرا نہ کرے۔ اس حدیث میں ایک اور مصلحت پوشیدہ ہے جو طبی نقطۂ نظر سے بہت اہم ہے، وہ یہ کہ کسی وجہ سے آدمی کی شہوت جاگ پڑے تو اس کو دبانا ٹھیک نہیں، ورنہ وہ جسمِ انسانی کو ضرر پہنچائے گی، کیل مہاسے، جریان و احتلام اور دیگر بیماریوں کی شکل میں مبتلا کر دے گی، قربان جائیں ہادیٔ برحق خاتم الرسل سیدنا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے ہمیں ایسی پاکیزہ تعلیمات اور حفظانِ صحت کے قیمتی اصولوں سے نوازا۔