سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! اللہ کے اس فرمان «لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا» یعنی ان کے لئے خوش خبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت کی زندگی میں، کا مطلب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ایسی بات پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے یا میری امت میں سے کسی نے نہیں پوچھی“، فرمایا: ”اس سے مراد اچھا خواب ہے جو مسلمان خود دیکھے یا اس کے لئے کوئی دوسرا شخص دیکھے۔“[سنن دارمي/من كتاب الرويا/حدیث: 2173]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إذا كان أبو سلمة سمعه من عبادة قال ابن خراش: لم يسمع أبو سلمة من عبادة بن الصامت، [مكتبه الشامله نمبر: 2182] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2276] ، [ابن ماجه 3898] ، [أحمد 315/5، 321، 325] ، [الحاكم 391/4] ، [أبويعلی 417، 2387] ، [ابن حبان 1896] ، [الحميدي 495]
وضاحت: (تشریح حدیث 2172) عہدِ نبوت میں وحیٔ الٰہی سے غیب کی خبر اور باتیں معلوم ہوتی تھیں، خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی قیامت تک نہیں آئے گا، اب مومنِ صالح کے خواب ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آگاہی عطا فرماتا ہے، اور جو شخص سچا امانت دار ہو اس کے خواب بھی سچے ہوتے ہیں، جھوٹے فریبی لوگوں کے خواب کا اعتبار نہیں، اسی طرح بدہضمی، برے خیالات سے جو خواب نظر آتے ہیں ان کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔