الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


سنن دارمي
من كتاب الاضاحي
قربانی کے بیان میں
23. باب النَّهْيِ عَنِ النُّهْبَةِ:
23. لوٹ مار رہزنی کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2033
أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَنْتَهِبُ نُهْبَةً ذَاتَ شَرَفٍ يَرْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ فِيهَا أَبْصَارَهُمْ وَهُوَ حِينَ يَنْتَهِبُهَا مُؤْمِنٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص مومن رہتے ہوئے کسی ایسی بڑی چیز کی لوٹ مار نہیں کر سکتا جس کی طرف لوگوں کی نظریں اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ مار کر رہا ہو تو وہ ایسی حالت میں مومن نہیں رہتا۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2033]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2037] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2475] ، [مسلم 57] ، [نسائي 5676] ، [ابن ماجه 3936] ، [أبويعلی 2699] ، [ابن حبان 186] ، [الحميدي 1163]

وضاحت: (تشریح حدیث 2032)
یعنی ایسا جرم کرتے وقت وہ مومن نہیں رہتا، ایمان اس سے جدا ہو جاتا ہے، اگر ایمان رہتا تو ایسا کام کیوں کرتا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غارت گری کرنے والا، چوری کرنے والا، اور لوٹ مار کرنے والا، اگر یہ لوگ مدعیان اسلام ہیں تو سراسر اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں، مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ اگر اس سے چوری، زنا کاری یا اور کوئی برا کام سرزد ہو جائے تو وہ حد درجہ پشیمان ہو کر ہمیشہ کے لئے تائب ہو جاتا ہے اور استغفار میں منہمک رہتا ہے۔
(راز)۔

حدیث نمبر: 2034
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النُّهْبَةِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: هَذَا فِي الْغَزْوِ إِذَا غَنِمُوا قَبْلَ أَنْ يُقْسَمَ.
عبدالرحمٰن بن سمرہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ مار سے منع فرمایا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس سے مراد غزوات میں تقسیم سے پہلے کی مال غنیمت کی لوٹ مار ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2034]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2038] »
اس حدیث کی سند جید ہے اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3474] ، [ابن حبان 3267، 5170] ، [موارد الظمآن 1270، 1680] ، [أحمد 62/5] ، [ابن ابي شيبه 2369] ، [طحاوي مشكل الآثار 130/1] ۔ ابولبید کا نام لمازہ بن زبار ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 2033)
لوٹ مار کسی وقت بھی جائز نہیں، خواہ وہ مال غنیمت کی ہو یا کسی اور کے مال کی، ارشادِ ربانی ہے: «﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ...﴾ [النساء: 29] » اے مومنو! تم ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔
اس حدیث میں لوٹ مار اور رہزنی سے منع کیا گیا ہے اور یہ حرام ہے۔