سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایک چڑیا کو ناحق مارے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اس بارے میں پرسش کرے گا“، عرض کیا گیا: اس کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حق یہ ہے کہ تم اس کو ذبح کرو پھر اس کو کھاؤ۔“[سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2017]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2021] » اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [نسائي 4354] ، [مسند الحميدي 598]
وضاحت: (تشریح حدیث 2016) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بے مقصد چھوٹے سے جانور کو بھی مارنا قیامت کے دن رسوائی کا سبب ہے، اس سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اس جانور کو ناحق کیوں مارا تھا۔ ایک اور نسائی کی روایت میں ہے کہ جو شخص ایک چڑیا کو بے فائدہ مار ڈالے وہ قیامت کے دن چلائے گی کہ اے پروردگار! فلاں شخص نے مجھ کو بے فائدہ قتل کر ڈالا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا کھیل عبث و مکروہ ہے، ہاں اگر ذبح کرنے اور کھانے کے لئے چڑیا مارے یا شکار کرے تو یہ بلا تردد جائز ہے۔ والله اعلم۔