مروان بن الحکم سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا علی و سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کو مکہ و مدینہ کے درمیان دیکھا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ حج تمتع سے روکتے تھے، جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے حج قران کا احرام باندھ لیا اور «لبيك بحجة و عمرة» کہا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم دیکھتے ہو کہ میں اس سے منع کر رہا ہوں پھر بھی تم ویسا ہی کرتے ہو؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں میں سے کسی کے کہنے سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تو نہیں چھوڑ سکتا۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1961]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1965] » اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث بھی متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1089، 1563] ، [مسلم 690] ، [أبويعلی 2794] ، [نسائي 2727] ، [ابن حبان 3930] ، [الحميدي 1249]
وضاحت: (تشریح حدیث 1960) یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ دونوں خلیفۃ المسلمین میں بحث تو تمتع کے بارے میں تھی پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قران کیا، اس کا جواب یہ ہے کہ قران اور تمتع دونوں میں نیّت حج اور عمرے کی ہوتی ہے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرح تمتع کو خلافِ اولی سمجھتے تھے یہ ان کا اجتہاد تھا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «﴿فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ﴾ [البقرة: 196] » سیدنا عثمان و سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے اس مباحثے میں بہت سے فوائد ہیں، کچھ یہاں عرض کئے جاتے ہیں: اس مباحثے سے معلوم ہوا کہ جس کسی کے پاس علم ہو اس کی اشاعت کرنا، اور اہلِ اسلام کی خیر خواہی کے لئے امرِ حق کا اظہار کرنا، یہاں تک کہ اگر مسلمان حاکموں سے مناظرے تک کی نوبت پہنچ جائے تو یہ بھی کر ڈالنا، اور کسی امرِ حق کا محض بیان ہی نہ کرنا بلکہ اس پر عمل کر کے بھی دکھلا دینا، اور نص سے کسی مسئلہ کا استنباط کرنا، کیونکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ چیز مخفی نہ تھی کہ حج تمتع اور قران بھی جائز ہیں مگر انہوں نے افضل پر عمل کرنے کے خیال سے تمتع سے منع فرمایا، جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی واقع ہوا، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے اس پر محمول کیا کہ عوام الناس کہیں اس نہی کو تحریم پر محمول نہ کر بیٹھیں، اس لئے انہوں نے اس کے جواز کا اظہار فرمایا بلکہ عمل بھی کر کے دکھلا دیا، اس پر دونوں کو ہی اجتہاد کا اجر و ثواب ملے گا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فروعی اختلافات پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا درست نہیں، اس کی بہت سی مثالیں سلف صالحین سے مذکور ہیں (راز رحمۃ اللہ علیہ)۔ اللہ تعالیٰ سب کو وسعتِ قلبی اور باہمی عزت و احترام کی توفیق بخشے، آمین۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج وعمرہ دونوں کا احرام باندھا، راوی بکر نے کہا کہ پھر میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی اور انہیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے قول کے بارے میں بتایا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا تھا، میں پھر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بات بتائی تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہم کو بچہ سمجھتے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1963]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1967] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1232] ، [أبوداؤد 1795] ، [نسائي 2728] ، [ابن حبان 3933]
وضاحت: (تشریح احادیث 1961 سے 1963) نسائی کی روایت میں ہے: تم ہمیں بچہ سمجھتے ہو، میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك عمره و حجًا معًا» کہتے ہوئے سنا۔ اس حدیث کو ذکر کرنے کا مقصد امام دارمی رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کی نیّت کر کے احرام باندھا تھا، لہٰذا یہ حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قول و فعل کی تائید کرتی ہے جس کی تفصیل پیچھے ذکر کی جا چکی ہے۔