کریب نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ جس شام کو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار تھے تم نے کیا کیا؟ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم رات گزارنے کے لئے اس وادی میں پہنچے جہاں لوگ اپنے اونٹ بٹھاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا، پھر پیشاب کی حاجت رفع کی اور پانی ڈالنے کا حکم نہیں دیا، پھر وضو کا پانی منگایا اور ہلکا سا وضو کیا، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! نماز کا وقت ہو گیا؟ فرمایا: ”نماز تمہارے آگے ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے یہاں تک کہ ہم مزدلفہ پہنچ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی اور لوگ پڑاؤ ڈال چکے تھے اور کجاوے نہ کھول پائے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز اقامت کے ساتھ پڑھی، پھر لوگوں نے اپنے کجاوے کھولے۔ کریب نے کہا: یہ بتایئے پھر صبح آپ لوگوں نے کیا کیا؟ کہا: وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما تھے اور میں قریش کے ساتھ پیدل چلنے والوں میں سے تھا۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1919]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1923] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 139] ، [مسلم 1280] ، [أبوداؤد 1925] ، [نسائي 3024] ، [أبويعلی 6722] ، [ابن حبان 1594]
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء کی نماز ملا کر پڑھی۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1921]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1925] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1674] ، [مسلم 1287] ، [نسائي 604] ، [ابن ماجه 3020] ، [ابن حبان 3858] ، [الحميدي 387]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء ملا کر پڑھیں تو کسی نماز کے لئے اذان نہیں دی، بس صرف ایک بار اقامت ہوئی، نہ دونوں نمازوں کے درمیان سنت یا نفل پڑھے نہ نماز کے بعد میں۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1922]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1926] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1092، 1673] ، [مسلم 1988] ، [أبوداؤد 1928] ، [نسائي 659، 3028]
وضاحت: (تشریح احادیث 1918 سے 1922) ان احادیث سے مزدلفہ میں بھی جمع بین الصلاتین یعنی مغرب عشاء ملا کر پڑھنے کا ثبوت ملا، اختلاف اذان اور اقامت کے سلسلے میں ہے، کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس بارے میں مختلف راویات مروی ہیں، مذکورہ بالا روایت میں صرف اقامت کا ذکر ہے، اس سلسلے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں، صحیح یہ ہے کہ جمع بین الصلاتین میں پہلی نماز کے لئے اذان دی جائے اور اقامت (تکبیر) دونوں نمازوں کے لئے کہی جائے۔ اہل الحدیث، حنابلہ اور شافعیہ کا یہی مسلک ہے اور یہی راجح ہے، بعض علماء نے دو اذان، دو اقامت اور بعض نے کہا نہ اذان نا اقامت، بعض نے کہا صرف اقامت کہی جائے اذان نہیں، صحیح مسلک وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔ مزدلفہ کو جمع کہتے ہیں کیونکہ وہاں حضرت آدم و حضرت حواء علیہم السلام جمع ہوئے تھے، بعض نے کہا کہ وہاں دو نمازیں جمع کی جاتی ہیں۔ ابن منذر رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ مزدلفہ میں دونوں نمازوں کے بیچ میں نفل و سنّت نہ پڑھے، ابن منذر رحمہ اللہ نے کہا: جو کوئی بیچ میں سنّت یا نفل پڑھے گا تو اس کا جمع صحیح نہ ہوگا۔ (وحیدی)۔