سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدہ ضباعہ بنت الزبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا حج کرنے کا ارادہ ہے تو میں کیسے (نیت) کہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ایسے کہو: «لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ وَمَحِلِّىْ حَيْثُ تَحْبِسُنِيْ.» یعنی میں حاضر ہوں اے الله میں حاضر ہوں اور میری جگہ احرام کھولنے کی وہی ہے جہاں تو مجھے روک دے، اس طرح تو نے جو شرط لگائی وہ تیرے پروردگار پر ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1849]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1852] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1207] ، [أبوداؤد 1776] ، [ترمذي 941] ، [نسائي 2765] ، [أبويعلی 2480] ، [ابن حبان 3775]
وضاحت: (تشریح حدیث 1848) احرام کے وقت اس طرح شرط لگانا کہ اگر مکہ تک پہنچنا نہ ہوگا تو جہاں تک پہنچ سکوں وہیں احرام کھول دوں گا، اس شرط کا فائدہ یہ ہے کہ اس کو احرام کھولنا درست ہوگا، جہاں وہ بیماری کی وجہ سے مجبور ہو جاوے اور آگے نہ جا سکے، اور ہدی کے منیٰ میں ذبح ہونے کا انتظار نہ کرنا پڑے، جیسے اور احصار میں ہوتا ہے۔ (وحیدی) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بعض علماء کا اسی پر عمل ہے کہ حج میں اس طرح شرط لگانا جائز ہے، پھر اگر کوئی حاجی بیمار ہو جائے یا معذور ہو تو احرام کھول دے، اور بعض علماء کے نزدیک چاہے شرط لگائے یا نہ لگائے احرام فسخ کرنا جائز نہیں، لیکن قولِ اوّل صحیح ہے جو امام شافعی، امام احمد و امام اسحاق رحمہم اللہ کا مسلک ہے۔ والله اعلم