عبدالله بن حنین نے کہا: سیدنا مسور بن مخرمہ اور سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہم کے درمیان محرم کا اپنے سر کو دھونے کے بارے میں اختلاف ہو گیا، چنانچہ انہوں نے مجھے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ ان سے پوچھوں کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت احرام میں کس طرح اپنا سر دھوتے ہوئے دیکھا ہے؟ لہٰذا میں سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا جو کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان بیٹھے ایک کپڑے کی آڑ میں غسل کر رہے تھے، میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے پردہ نیچے کیا، میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ کے چچا زاد بھائی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کے پاس بھیجا ہے (یہ پوچھنے کے لئے) کہ آپ نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں اپنا سر کیسے دھوتے تھے؟ سو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو سر پر پھیرا، آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1831]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1834] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1840] ، [مسلم 1205] ، [ابوداؤد 1840] ، [نسائي 2664] ، [ابن ماجه 2934] ، [أحمد 416/5] ، [ابن ابي شيبه 12846] ، [ابن حبان 3948] ، [الحميدي 383]
وضاحت: (تشریح حدیث 1830) دوسری روایات میں ہے کہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے پانی ڈالنے کو کہا، اس نے پانی ڈالا اور پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے پیچھے سر پر پھیرا۔ اس سے معلوم ہوا کہ احرام کی حالت میں سر دھونا جائز ہے لیکن بالوں کو رگڑنا نہیں چاہیے، مولانا داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں: اس حدیث کے فوائد میں سے صحابہ کرام کا باہمی طور پر مسائلِ احکام سے متعلق مناظرہ کرنا، پھر نص کی طرف رجوع کرنا اور پھر ان کا خبرِ واحد کو قبول کر لینا بھی ہے ..... انتہیٰ شرح بخاری شریف (1840)۔ ایک روایت میں ہے: مسئلہ معلوم ہوجانے پر سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ اب میں کسی مسئلہ میں آپ سے جھگڑا (فی روایۃ مخالفۃ) نہیں کروں گا۔ کما فی مسلم (1205)۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھنے کے لئے کپڑے اتارے اور غسل فرمایا، سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اہلال کے لئے (یعنی احرام باندھنے یا تلبیہ کہنے کے وقت) ایسا کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1832]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف عبد الله بن يعقوب المدني مجهول، [مكتبه الشامله نمبر: 1835] » اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن متعدد طرق سے مروی ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 830] ، [الطبراني 4862] ، [دارقطني 220/2] ، [الحاكم 447/1] ، [بيهقي 32/5] ، [مجمع الزوائد 5391]
وضاحت: (تشریح حدیث 1831) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس حدیث کے پیشِ نظر کچھ اہلِ علم نے احرام باندھنے کے وقت غسل کرنا مستحب کہا ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے۔ احرام کے وقت غسل کرنا مستحب ہے ضروری نہیں، صحیح یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے غسل کر کے نکلے تھے لیکن احرام و تلبیہ میقات پر آ کر شروع کیا۔ (والله اعلم)