سیدنا ابولبابہ انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے راضی ہو گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے قبیلہ کی رہائش گاہ ترک کر کے آپ کے ساتھ سکونت اختیار کر لوں اور اپنے مال سے دست بردار ہو کر اسے اللہ اور رسول کے لئے صدقہ کر دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری طرف سے اس کا ثلث کافی ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الزكاة/حدیث: 1696]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في اسناده علتان: ضعف سعيد بن مسلمة وجهالة عبد الرحمن بن أبي لبابة. ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1699] » اس روایت کی سند میں سعید بن مسلمہ ضعیف اور عبدالرحمٰن بن ابی لبابہ مجہول الحال ہیں۔ دیکھئے: [ابن حبان 3371] ، [الموارد 841] ، نیز اسی طرح کا قصہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب کہ وہ غزوہ تبوک میں شرکت سے محروم رہ گئے تھے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3319] ، [نسائي 3833، 3834] ، ابولبابہ کے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کا ذکر الاستیعاب میں بھی ہے۔
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک آدمی انڈے کے برابر سونا لے کر آیا جو اسے کسی غزوے میں ملا تھا۔ اور احمد (بن خالد) نے کہا کہ کسی سونے کی کان سے حاصل ہوا تھا اور یہ ہی صحیح ہے۔ اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسے لے لیجئے، یہ میری طرف سے صدقہ ہے اور اللہ کی قسم اس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی مال نہیں ہے، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف سے آیا اور یہی عرض کیا، پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے آیا اور یہی عرض کیا تو آپ نے ناراض ہوتے ہوئے کہا: ”لاؤ“، پھر اس سونے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور پھینک دیا جو اگر کسی کے لگ جاتا تو یا تو اسے زخمی کر دیتا یا اچھی ضرب لگا دیتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنا سارا مال لے کر چلا آتا ہے اور اس کے پاس اس مال کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، پھر وہ اس مال کو صدقہ کر دیتا ہے، پھر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، اصلی صدقہ وہ ہے جس کا مالک صدقہ دینے کے بعد بھی مالدار رہے، چلو اپنا مال لے جاؤ، ہمیں اس کی ضرورت نہیں“، چنانچہ اس شخص نے وہ انڈے کے برابر سونا اٹھایا اور چلا گیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: جب کوئی آدمی اپنا مال مساکین پر صدقہ کرے تو اپنے مال کا ایک تہائی حصہ صدقہ کرے۔ [سنن دارمي/من كتاب الزكاة/حدیث: 1697]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 1700] » اس روایت کے کل رواۃ ثقات ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [أبوداؤد 1673] ، [أبويعلی 2084] ، [ابن حبان 3372] ، [موارد الظمآن 839]
وضاحت: (تشریح احادیث 1695 سے 1697) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا حدیث میں یہ صدقہ اس لئے قبول نہیں فرمایا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ وہ محتاج ہو جائے گا، اپنے اہل و عیال کو کیا کھلائے گا؟ سب سے مقدم اپنے اہل و عیال کی پرورش ہے پھر جو حاجتِ ضروری سے بچے وہ مسکینوں کو دیوے، پھر یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی جب کل مال صدقہ کر دیتا ہے تو اس کو ندامت و شرمندگی ہوتی ہے اور وہ مفلسی سے گھبراتا ہے، پھر ایسی نیکی سے کیا فائدہ جو بعد کو بری معلوم ہو، برخلاف اس کے یہ بہتر ہے کہ کچھ صدقہ کرے اور کچھ اپنے پاس بھی رکھے (وحیدی)، لہٰذا اس حدیث سے کل مال صدقہ کر دینے کی ممانعت ثابت ہوئی۔ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنا کل مال لا کر حاضرِ خدمت کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول بھی فرما لیا جیسا کہ آگے آرہا ہے، تو یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے اور فقر سے ڈرتے نہیں ہیں یا جن کو مال مل جانے کی توقع ہو وہ اپنا سارا مال صدقہ کر سکتا ہے۔ واللہ علم