سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مال دیتے تھے، میں عرض کرتا: جو مجھ سے زیادہ اس کا محتاج ہو اسے دے دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”بنا حرص و ہوس اور سوال کے اس مال سے اللہ تعالیٰ تمہیں جو کچھ نصیب فرمائے اسے لے لو اور جو نہ ملے اس کے پیچھے اپنا دل نہ لگاؤ۔“[سنن دارمي/من كتاب الزكاة/حدیث: 1685]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1687] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1473] ، [مسلم 1045] ، [نسائي 2607] ، [أبويعلی 167] ، [ابن حبان 4305] ، [مسند الحميدي 21]
اس سند سے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مثل سابق مروی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الزكاة/حدیث: 1687]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1689] » اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مسلم 1045 باب: إباحة الأخذ لمن أُعْطِي من غير مسألة ولا إشراف]
وضاحت: (تشریح احادیث 1684 سے 1687) ان روایات سے ثابت ہوا کہ بنا مانگے اور بنا طمع کے اگر بیت المال سے انسان کو کچھ عطیہ مال و دولت مل جائے تو اسے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور لینے کے بعد اختیار ہے کہ آدمی اپنے مال میں ملا لے یا صدقہ کر دے، نسائی کی روایت میں «فتموله أو تصدق به» کا اضافہ بھی ہے، یعنی اپنا مال بنالو یا صدقہ کر دو۔ واللہ علم۔