سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا: میں عید کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا، آپ نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھی، پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ عورتوں کے پاس پہنچے اور انہیں وعظ و نصیحت کی اور انہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا، فرمایا: ”صدقہ و خیرات کرو“، پھر کچھ جہنم کے بارے میں ذکر کیا (کہ ”تم میں سے بہت سی جہنم کا ایندھن ہوں گی“) پس ایک عورت کم درجہ کی، کالے گالوں والی کھڑی ہوئی، عرض کیا: ایسا کیوں ہے اے اللہ کے رسول؟ فرمایا: ”اس لئے کہ گلہ شکوہ، لعن طعن، اور خاوند کی ناشکری بہت کرتی ہیں“، یہ سن کر وہ اپنے زیور بالیاں اور انگوٹھیاں اتار اتار کر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں، وہ صدقہ دیتی تھیں۔ [سنن دارمي/من كتاب العيدين/حدیث: 1649]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1651] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 961] ، [مسلم 885] ، [أبوداؤد 1141، 1159] ، [ترمذي 537] ، [نسائي وهذا لفظه 1586] ، [ابن ماجه 1291]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے ہم معنی روایت کیا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب العيدين/حدیث: 1650]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1652] » تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1648 سے 1650) اس حدیث کی باب سے مطابقت یہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو صدقہ و خیرات کرنے کی رغبت دلائی، دیگر روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لئے فرمایا کہ ”اکثر عورتیں جہنم کا ایندھن ہوں گی“ اور سبب یہ بتایا کہ شکوے شکایت، لعن طعن اور شوہر کی ناشکری بہت کرتی ہیں، اور یہ حالِ واقع ہے، عام طور سے عورتوں کا یہی حال ہے، شوہر زندگی بھر بھلائی و شرافت کا سلوک کرے اگر خدا نخواستہ تھوڑی سی تکلیف ہوئی تو واویلا کرنے لگتی ہیں اور سناتی ہیں کہ ہم نے اس گھر میں چین و سکون دیکھا ہی نہیں، اس طرح شوہر کی ناشکری کر کے جہنم کا ایندھن بنتی ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ دے، آمین۔ اس حدیث میں عورتوں کا اپنے زیورات کو صدقہ و خیرات میں دینا ثابت ہوا، نیز عورتوں کا جوق در جوق عیدگاہ میں حاضر ہونا بھی ثابت ہوا، اور کیوں نہ ہو حبیبِ کائنات فخرِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تھا جو اس دور کی خواتین نے آج کل کے (بزعمِ خود) فقہاء سے زیادہ اچھی طرح سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ اس حدیث میں عورتوں کے لئے خاص طور پر خطبہ دینے کا ثبوت بھی ملا اور انہیں وعظ و نصیحت، تقویٰ و شعائرِ دینیہ کی تعلیم دینا بھی اور صدقہ و خیرات پر ابھارنا بھی ثابت ہوا (واللہ اعلم)۔