سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بددعا کرتے یا کسی کو دعا دیتے تو رکوع کے بعد قنوت پڑھتے، بعض اوقات کہا کہ «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کے بعد دعا فرماتے: «اَللّٰهُمَّ ........ الخ» یعنی اے اللہ ولید بن ولید اور سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مسلمانوں میں سے جو کمزور ہیں ان کو نجات دے، اے اللہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے اور ایسی قحط سالی میں مبتلا فرما دے جیسی قحط سالی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں آئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بآواز بلند یہ دعا کرتے اور عرب کے بعض قبیلوں پر بدعا کرتے «اَللّٰهُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا» اے اللہ فلاں اور فلاں پرلعنت کر، یہاں تک کہ یہ آیت شریفہ نازل ہوئی: «لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ»[آل عمران: 128/3]”اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کر لے یا انہیں عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔“[سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1634]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1636] » اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 804] ، [مسلم 675] ، [أبوداؤد 1442] ، [نسائي 1073] ، [ابن ماجه 1244] ، [أبويعلی 5873] ، [ابن حبان 1972] ، [مسند الحميدي 968]
وضاحت: (تشریح حدیث 1633) مفسرین نے لکھا ہے یہ قنوتِ نازلہ تھی، مذکورہ بالا آیتِ شریفہ کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کرنا بند کر دیا۔
عاصم نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے قنوت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رکوع سے پہلے ہے، میں نے کہا: فلاں کا تو خیال ہے کہ آپ نے کہا ہے قنوت رکوع کے بعد ہے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: اس نے جھوٹ بولا، پھر انہوں نے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھی، یا یہ کہا کہ ایک مہینے تک آپ بنی سلیم کے ایک قبیلے پر بددعا کرتے رہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1635]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1637] » یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1001] ، [مسلم 677] ، [أبويعلی 2921] ، [ابن حبان 1973]
وضاحت: (تشریح حدیث 1634) مقصد یہ کہ صرف ایک ماہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی ہے، تفصیل آگے آرہی ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں قنوت کیا؟ جواب دیا کہ: ہاں۔ دریافت کیا گیا یا (یہ کہا) میں نے کہا: رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد میں (قنوت پڑھی)؟ کہا: تھوڑے دن رکوع کے بعد۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں اسی کا قائل اور عامل ہوں اور میری رائے میں یہ قنوت صرف ایامِ حرب میں مشروع ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1638]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1640] » اس کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1001] ، [مسلم 677/298] ، [أبوداؤد 1444] ، [نسائي 1070] ، [ابن ماجه 1184] ، [أبويعلی 2832] ، [ابن حبان 1973]
وضاحت: (تشریح احادیث 1635 سے 1638) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ قنوتِ نازلہ کسی بھی نماز میں پڑھی جا سکتی ہے، اور یہ رکوع سے پہلے بھی جائز ہے اور رکوع کے بعد بھی، جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہے، امام دارمی رحمہ اللہ بھی اسی طرف مائل ہیں اور اہل الحدیث کا یہی مسلک ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تو ہر نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے، اور جو لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں وہ سراسر غلطی پر ہیں۔ علامہ وحیدالزماں صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو پہلے حنفی تھے پھر مسلک اہلِ حدیث اختیار کیا، فرماتے ہیں: اہلِ حدیث کا مسلک یہ ہے کہ قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح درست ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ قنوت ہمیشہ رکوع کے بعد پڑھے، اور حنفیہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ رکوع سے پہلے پڑھے، اور اہلِ حدیث سب سنّتوں کا مزہ لوٹتے ہیں، گذشتہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں اور ظالموں پر بد دعا کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ «(انتهىٰ مع الملخص)» ۔ ان احادیث میں وتر میں قنوت پڑھنے کا ذکر نہیں، لیکن جب فرض نماز میں قنوت پڑھنا جائز ہوا تو وتر میں بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔ (داؤد رحمہ اللہ)۔ وتر میں «اَللّٰهُمَّ اهْدِنَا فِيْمَنْ هَدَيْتَ» اور قنوتِ نازلہ میں دشمن کا نام لے کر «اَللّٰهُمَّ الْعَن فُلَانًا» کہنا چاہیے اور «اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ» بھی قنوتِ نازلہ کے لئے ہے، اس کے علاوہ بھی «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ» وغیرہ ادعیہ قنوت کے طور پر پڑھنا وتر اور دیگر نمازوں میں بوقتِ ضرورت جائز ہے (واللہ علم۔ مترجم)۔