ابووائل نے کہا: سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے ہمیں بہت مختصر اور نہایت بلیغ خطبہ دیا تو ہم نے کہا: اے ابویقظان! اس خطبہ کو اگر اور لمبا کرتے تو اچھا تھا؟ کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ فرماتے تھے کہ: ”آدمی کا نماز کو لمبا کرنا اور خطبے کو مختصر کرنا اس کے سمجھ دار ہونے کی نشانی ہے، سو تم اس نماز کو لمبا کرو اور ان خطبوں کو چھوٹا کرو، اور بعض بیان جادو (اثر) ہوتا ہے۔“(یعنی بعض مختصر کلام بھی جادو کی طرح اثر کرتا ہے)۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1595]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1597] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 869] ، [أبويعلی 1642] ، [ابن حبان 2791]
سیدنا جابر بن سمرة رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی درمیانی اور خطبہ بھی در میانہ (متوسط) تھا (یعنی نہ لمبا اور نہ بہت مختصر)۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1596]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1598] » اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسلم 866] ، [ترمذي 507] ، [نسائي 1581] ، [ابن حبان 2802] ، [معرفة السنن و الآثار 6805]
وضاحت: (تشریح احادیث 1594 سے 1596) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ جمعہ کا خطبہ زیادہ لمبا نہ ہونا چاہیے، نیز «وَ إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا» میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خطیب ایسا اسلوب اور بیان اختیار کرے جو مؤثر ہو اور معلومات سے پُر، عبرت و موعظت سے بھر پور ہو، اور یہ ہی خطیب کی سمجھداری ہے کہ اختصار کے باوجود خطبہ فائدہ مند ہو اور نماز اطمینان و سکون کے ساتھ، تعدیلِ ارکان کی رعایت کے ساتھ نسبتاً لمبی ہو۔ رٹے رٹائے عربی میں خطبے پڑھنا جن کو سامعین سمجھ نہ سکیں خطبے کی روح کے منافی ہیں۔ (واللہ اعلم)۔