سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے علم میں مدینے کے لوگوں میں نمازیوں میں سے کسی کا مکان مسجد (نبوی) سے اتنا دور نہ تھا جتنا ایک شخص کا تھا، (اس کے باوجود) وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام نمازوں میں حاضر ہوتا تھا (یعنی جماعت سے کوئی نماز ناغہ نہ ہوتی تھی) اس سے کہا گیا: اگر تم گدھا خرید لو اور گرمی و اندھیرے میں اس پر سوار ہو کر آیا کرو تو مناسب ہے، اس نے جواب دیا: الله کی قسم مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد (نبوی) سے لگا ہوا ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول (میں نے ایسا اس لئے کہا) تاکہ میرے نامۂ اعمال میں میرے نقش قدم اور اہل و عیال کی طرف واپسی اور میرا آنا جانا سب لکھا جائے (اور مجھے اس کا ثواب ملے)، یا اس جیسے الفاظ کہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہاری نیت کے مطابق تمہیں یہ سب کچھ عنایت فرما دیا۔“(یا اس جیسا جملہ کہا)۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1319]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1321] » اس حدیث کی سند میں تیمی کا نام سلیمان اور أبوعثمان: عبدالرحمٰن ہیں اور سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 662] ، [أبوداؤد 554] ، [ابن ماجه 783] ، [ابن حبان 2040] ، [الحميدي 380]
وضاحت: (تشریح حدیث 1318) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دور دراز مقام سے نماز کے لئے مسجد میں جانے کی بڑی فضیلت ہے، ہر ہر قدم پر نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور اگر خلوصِ وللّٰہیت ہو تو آنا جانا سب بھی نیکیوں میں شمار ہوتا ہے، یہاں اس صحابی کی فضیلت بھی معلوم ہوئی جو صرف حصولِ اجر کی خاطر مسجد سے دور رہے اور نہ سواری خریدی نہ مسجد کے قریب منتقل ہوئے۔ «رضي اللّٰهُ عنهم و أرضاهم» ۔