سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”تم جب ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے جو نماز کو تاخیر وقت سے پڑھیں گے تو تم کیا کرو گے؟“ عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، ارشاد فرمایا: ”نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا اور (ضرورت پڑے تو مسجد سے) نکل جانا پھر اگر نماز پڑھی جائے اور تم مسجد ہی میں موجود ہو تو ان کے ساتھ نماز پڑھ لیا کرنا۔“[سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1261]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1263] » یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 648] ، [نسائي 777] ، [ابن حبان 1482]
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر! تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے امیر ہوں گے جو نماز آخر وقت میں پڑھیں گے؟“ عرض کیا: آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ”تم نماز اس کے (اول) وقت میں ادا کر لینا، اور ان کے ساتھ نفلی نماز کی نیت سے نماز پڑھ لیا کرنا۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: عبداللہ بن الصامت ابوذر کے بھتیجے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1262]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1264] » یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 648، وما قبله وبعده] ، [أبوداؤد 431] ، [نسائي 858] ، [ابن ماجه 1252]
وضاحت: (تشریح احادیث 1260 سے 1262) ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نماز اوّل وقت میں ادا کی جائے، اگر امام یا امیر اس کو آخر وقت میں تاخیر سے پڑھیں تو اگر مسجد میں ہوں تو ان کے ساتھ نفلی نماز کی نیت سے دوبارہ نماز پڑھ لیں۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ یہ نہ کہنا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے اس لئے کہ اس سے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔