عبد خیر نے بیان کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھنے کے بعد رحبہ میں تشریف لائے (جو کوفے کا ایک مقام ہے) اور بیٹھ گئے، پھر اپنے غلام سے فرمایا: وضو کا پانی لاؤ، راوی نے کہا: غلام پانی کا برتن اور طشت لے کر آیا۔ عبد خیر نے کہا: ہم بیٹھے ہوئے ان کی طرف دیکھ رہے تھے، انہوں نے اپنا داہنا ہاتھ (پانی میں ڈالا) اور منہ میں پانی بھرا، کلی کی، اور ناک میں پانی چڑھایا اور بائیں ہاتھ سے اسے جھاڑا، اس طرح تین بار کیا، پھر فرمایا: جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دیکھنا چاہے تو یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو ہے۔ (یعنی کلی، استنشاق اور استنثار)۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 724]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 728] » دیکھئے: [مسند أبى يعلي 286] ، [صحيح ابن حبان 1056] ، [موارد الظمآن 150] ، کلی اور ناک میں پانی ڈالنا اور صاف کرنے کا ذکر بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 164] و [مسلم 235]
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 725]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 729] » تخریج کے لیے دیکھئے مذکورہ بالا حدیث۔
وضاحت: (تشریح احادیث 721 سے 725) کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے اور جھاڑنے کا ذکر قرآن پاک میں نہیں ہے، لیکن احادیثِ صحیحہ سے یہ امور ثابت ہیں، اس لئے بنا کلی اور ناک صاف کئے وضو درست نہ ہوگا۔