عباد شامی نے کہا: اما بعد! لوگو! عقل سے کام لو، عقل تو بڑی نعمت ہے۔ کتنے ایسے ذی عقل ہیں جنہوں نے اس چیز کے انتفاع سے جس کا وہ محتاج تھا، ضرر رساں چیزوں میں تعمق و گہرائی سے اپنے دل کو مشغول کر رکھا ہے، یہاں تک کہ وہ دل انتفاع (فائدہ حاصل کرنے) سے بالکل غافل ہو چکا ہے۔ آدمی کی عقل کا کمال یہ ہے کہ وہ جس امر میں دانائی نہیں، غور ہی نہ کرے تاکہ اس کی عقل (ان بے مقصد چیزوں میں تعمق سے) اس کے لئے وبال جان نہ بن جائے، اور وہ اپنے سے کم تر کے ساتھ اعمال صالحہ میں منافست کو ترک دے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اصحاب رسول کو چھوڑ کر دوسروں کی تقلید اپنا لی اور اپنے دل کو بدعت و خرافات میں مشغول کردیا ہے۔ کچھ اپنی رائے لے کر بیٹھ گئے ہیں اور ہدایت کو اپنی رائے میں محصور و محدود سمجھ لیا ہے، اور اس رائے کے چھوڑنے کو ضلالت و گمراہی تصور کرنے لگے ہیں، وہ اپنے اس زعم (باطل) میں مبتلا ہیں کہ اس (بدعت) کا ماخذ قرآن ہے، حالانکہ حقیقتاً وہ قرآن سے کوسوں دور ہیں۔ کیا ان سے اور ان جیسے لوگوں سے پہلے حاملین قرآن نہ تھے جو اس کے محکم (حکم) کا علم رکھتے اور متشابہ پر ایمان رکھتے تھے؟ جو بیچ راستے میں روشن مینار تھے؟ قرآن پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل ماخذ و امام تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سنت، ان کے صحابہ اس کا ماخذ و مصدر تھے، اور آپ کے صحابہ ان کے بعد آنے والوں کے امام تھے جو اپنے وطن میں معروف و مشہور تھے، اور وہ اختلاف رائے کے باوجود اہل الأھواء پر نکیر اور رد میں اتفاق رائے رکھتے تھے، وہ ہویٰ و ہوس کے بندے جو اپنی آراء میں جادہ حق سے ہٹے ہوئے تھے صراط مستقیم کو چھوڑ بیٹھے تھے، گمراہی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے، اور ان رہنماؤں نے انہیں گمراہی کے غار میں دھکیل دیا تھا، چنانچہ وہ اس میں دھنستے چلے گئے، اور شیطان ان کے لئے نت نئی بدعتیں ایجاد کرتا رہا، اور وہ ایک بدعت سے دوسری بدعت کی طرف منتقل ہوتے رہے، اور انہوں نے نہ سابقین اولین کا طریقہ اور راستہ تلاش کیا نہ مہاجرین کی اقتداء کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے، انہوں نے زیاد سے فرمایا: جانتے ہو اسلام کو کون سی چیز ڈھا دے گی؟ عالم کی لغزش، قرآن کے ذریعہ منافق کا جدال اور گمراہ کرنے والے امام (یعنی یہ تینوں اسلام کو منہدم کر دیں گے)، پھر فرمایا: اللہ سے ڈرو، اور اس چیز سے جو تمہارے علماء (قراء) اور اہل مساجد میں پیدا ہو گئی ہیں، جیسے غیبت و چغلی (اور ہاں میں ہاں ملانے)، دو چہرے دو زباں لے کر لوگوں کے درمیان چلنے سے بچو، کیونکہ روایت کیا گیا ہے کہ دنیا میں جس کے دو چہرے ہیں جہنم میں بھی اس کے دو چہرے ہوں گے۔ غیبت کرنے والا تم سے ملتا ہے تو تمہارے سامنے اس کی غیبت کرتا ہے جس کی برائی تمہیں پسند ہو، اور جب وہ اس کے پاس جاتا ہے تو تمہاری مخالفت اور برائی ویسے ہی کرتا ہے جیسے تمہارے سامنے کی، اس طرح تم دونوں سے اس کی مراد پوری ہو جاتی ہے، حالانکہ تم دونوں سے یہ بات مخفی رہتی ہے کہ وہ تمہارے درمیان کیا زہر گھول گیا؟ اس کی حاضری بھائیوں کے حاضر ہونے جیسی اور غیر حاضری ایسے ہے جیسے تمہارا وہ دشمن ہو، ان غیبت کرنے والوں میں سے جو حاضری دے تو اسے پسندیدگی ملتی ہے، اور جب غائب ہو تو اس کی کوئی حرمت نہیں ہوتی ہے، اور جو ان کے پاس جائے وہ تزکیہ کے فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور جو ان سے غائب رہے اس کی غیبت ہوتی ہے، ہائے اللہ کے بندوں کے لئے کوئی سمجھدار بنده یا ایسا مصلح نہیں جو ان کی مکاریوں کو طشت ازبام کرے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی عزت و آبرو سے انہیں کھلواڑ نہ کرنے دے، اور ان کی چال و فریب کو سمجھ لے، انہیں زیر کرے اور حاجت براری نہ کرنے دے کہ وہ غیبت کرنے والا اپنے دین کے زریعہ ان کے دین کو کھا جائے۔ لِلّٰہ: اپنے اعیان کی عزت و آبرو کا دفاع کرو، اور اپنی زبانوں کو اُن سے بھلائی کے علاوہ ہر چیز سے لگام دو، اگر تم حاملین کتاب و سنت ہو تو اپنی امت کے ساتھ خیر خواہی کرو، کیونکہ کتاب بولتی نہیں جب تک کہ اس کو واضح نہ کیا جائے، اسی طرح سنت کا اثر بھی نہیں ہوتا جب تک کہ اس پر عمل نہ کیا جائے۔ جاہل کیسے علم حاصل کرے گا۔ جب عالم چپ سادھ لے، اور جو بری چیز ظاہر ہوئی اس پر نکیر نہ کرے، اور جو معروف چھوڑ دیا گیا اس کا حکم نہ دے، حالانکہ جو لوگ کتاب دئے گئے تھے ان سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ اس کو ٹھیک ٹھیک طرح سے بیان کر دیں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں۔ لوگو! الله کا تقویٰ اختیار کرو، تم ایسے زمانے میں ہو جس میں زہد و ورع رقیق اور خشوع کم ہو گیا ہے، فساد برپا کرنے والوں نے علم کا بوجھ اٹھا لیا ہے، جو چاہتے ہیں کہ انہیں علم کا اہل گردانا جائے، اور وہ نہیں چاہتے کہ انہیں علم کو ضائع کرنے والا کہا جائے۔ یہ علم کے نام سے اپنی خواہشات کی ترجمانی کرتے ہیں، کیونکہ اپنی غلط روی سے انہوں نے علم کو بدل ڈالا ہے، اور اپنی بری اور غلط روش کی تاویل میں جملے ہی تحریف کر ڈالے ہیں، ان کے گناہ اتنے زبردست ہیں کہ ان کی مغفرت ہی نہیں، اور اتنی خامیاں ہیں کہ نظر انداز نہیں کی جا سکتی ہیں۔ رشد و ہدایت طلب کرنے والے کو کس طرح روشنی اور ہدایت ملے گی، جب رہنما ہی لٹیرے، جادهٔ حق سے بھٹکے ہوئے ہوں۔ انہوں نے دنیا کو محبوب بنایا اور اس کے اہل کی منزلت کو ناپسند کیا، عیش و عشرت میں تو ان کے ساتھ رہے لیکن قول و کردار میں ان کے مخالف، یہ اپنے نفس کا اس بات سے دفاع کرتے ہیں کہ برے افعال کی نسبت ان کی طرف ہو اور نیک لوگ جن افعال شنیعہ سے بچے ان سے یہ بچے نہیں، اور جس کی طرف ان صالحین کی نسبت تھی اس میں داخل ہی نہ ہوئے، حق پر عمل کرنے والا چاہے چپ ہی رہے عمل بولتا ہے۔ روایت کیا گیا ہے کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: میں ہر دانا کے قول کو قبول نہیں کر لیتا ہوں، بلکہ اس کے ارادے اور خواہش و نیت کو دیکھتا ہوں، اس کا همّ و ارادہ میرے لئے ہوتو اس کا خاموش رہنا بھی حمد و وقار بنا دیتا ہوں، چاہے وہ نہ کچھ کہے نہ کچھ بولے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا، پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو۔ [الجمعه 5/62 ] نیز فرمایا: جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑ لو [بقره 63/2] یعنی جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کے ذریعہ اسے مضبوطی سے تھام لو۔ سنت کو بنا عمل باتوں میں اپنانے پر اکتفا نہ کرو، بنا عمل کے سنت کو اپنانا چھوٹی بات اور علم کا ضیاع ہے۔ بدعات کے عیب کو مزین کر کے پیش نہ کرو، کیونکہ اہلِ بدعت کا فساد تمہاری صلاح سے زیادہ نہیں۔ اور نہ اہلِ بدعت پر زیادتی کر کے بدعت کی برائی کرو، کیونکہ یہ زیادتی تمہارے نفس کے فساد کی وجہ سے ہو گی۔ طبیب کے لئے مناسب نہیں کہ بیماروں کا علاج ایسی چیز سے کرے جو انہیں کو بے زار کرے، یا اور مرض بڑھا دے، اور جب طبیب ہی بیمار ہو جائے تو ان کا علاج چھوڑ کر اپنی ہی بیماری میں مشغول ہو جائے گا، لہٰذا اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ اپنے لئے صحت تلاش کرے تاکہ قوت کے ساتھ بیماروں کا علاج کر سکے۔ پس اپنے بھائیوں سے تمہارا معاملہ اپنے نفس کے لئے جو ناپسند کرتے ہو اس جیسا ہونا چاہیے اور تمہاری طرف سے رب کے لئے نصیحت اور بھائیوں کے لئے شفقت ہونی چاہیے، مزید یہ کہ تم اپنے نفس کے عیوب پر غیروں کے عیوب سے زیادہ توجہ دو، اور ایک دوسرے کو نصیحت کرو، اور جو تم کو نصیحت کرے یا نصیحت قبول کر لے وہ تمہارے نزدیک صاحب حظ و نصیب ہو۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: الله تعالیٰ اس پر رحمت نازل فرمائے جس نے مجھے میرے عیوب سے آگاہ کیا۔ تم چاہتے ہو کہ جو کچھ تم کہتے ہو اسے برداشت کیا جائے اور اگر ایسا ہی تم سے کہا جائے تو تم ناراض ہو جاتے ہو، تم لوگوں کے پاس ایسے امور پاؤ گے جن پر تم نکیر کرو گے، حالانکہ تم خود ویسے ہی کاموں کا ارتکاب کرو گے، تمہیں یہ کیوں پسند نہیں کہ تمہاری بھی اس پر گرفت کی جائے؟ اپنی اور اپنے ہم عصر لوگوں کی رائے کو بھی قابل تنقید سمجھو، اور بات کہنے سے پہلے تحقیق کر لو اور عمل سے پہلے علم حاصل کرو، ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں حق و باطل خلط ملط ہو جائے گا، جس میں معروف (بھلائی) منکر (برائی) ہو جائے گی اور منکر معروف ہو جائے گا، اس کی وجہ سے کتنے اللہ کا قرب چاہنے والے اس سے دور ہو جائیں گے اور اللہ سے محبت کرنے والے اس کو ناراض کر دیں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا پس وہ شخص جس کے لئے اس کے برے اعمال مزین کر دیئے گئے ہیں، پس وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے۔ [فاطر 8/35 ] لہٰذا شبہات کی موجودگی میں توقف کو لازم پکڑنا یہاں تک کہ دلیل واضح کے ساتھ تمہارے لئے حق ظاہر ہو جائے، اس لئے کہ جو نہیں جانتا اس میں بنا علم کے داخل ہونے والا گنہگار ہے، اور جو اللہ کے لئے دیکھے تو الله تعالیٰ اس کے لئے دیکھتا ہے۔ قرآن کریم کو لازم پکڑو، اس کی اقتداء کرو، اور اسی کو اپنا امام مانو، اور اس بارے میں پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو، اگر احبار و رہبان (علماء یہود و نصاریٰ) کو اپنی کتاب کے مطابق عمل کے ذریعے اور اُس کو بیان کر کے اپنی قدر و منزلت خطرے میں پڑنے کا خوف نہ ہوتا تو وہ نہ اس (کتاب) میں تحریف کرتے اور نہ اس کو چھپاتے۔ لیکن جب انہوں نے اپنے اعمال سے کتاب کی مخالفت کی تو قوم کو دھوکہ دینے کے لئے حیلے بہانے تلاش کرنے لگے کہ لوگوں پر ان کا فساد ظاہر ہو کر ان کے مراتب میں بگاڑ اور بربادی نہ ہو پائے، اس لئے انہوں نے کتاب اللہ میں تحریف کر ڈالی اور جس میں تحریف نہ کر سکے اسے چھپا گئے، اپنی عزت و مرتبے کے خوف سے اپنے کرتوت پر خاموشی اختیار کئے رہے، اور اپنے عمل کی وجہ سے ہی اپنی قوم کے اعمال پر بھی خاموشی اختیار کئے رہے، حالانکہ اللہ نے اہلِ کتاب سے عہد لیا تھا کہ وہ اس (کتاب) کو لوگوں کیلئے کھول کھول کر بیان و واضح کر دیں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں، بجائے اس کے انہوں نے قوم کے کرتوت پر ان کی مدد کی اور ان کے ساتھ نرمی برتی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 672]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف عبد الملك بن سليمان الأنطاكي مجهول، [مكتبه الشامله نمبر: 675] » اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں عبدالملک بن سلیمان مجہول اور خود عباد متکلم فیہ ہیں۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 282/8] ۔ لیکن یہ وعظ اقوال زرین کا بہترین مجموعہ اور بہترین نصائح ہیں۔ حکمت و دانائی، رشد و رہنمائی مومن کی گمشده پونجی ہے، جہاں بھی مل جائے اس کو قبول کر لے، بشرطیکہ قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو۔