ابراہیم بن میسرہ نے کہا کہ مجاہد نے طاؤوس رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ میں نقاب لگائے نماز پڑھ رہے ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں: اے اللہ کے بندے! اپنا نقاب ہٹا دے، اور آواز سے پڑھ (یعنی اعلانیہ حدیث بیان کر)، ابراہیم نے کہا: اس کی تعبير انہوں نے علم سے کی، اور اس کے بعد مسرور ہو کر حدیث بیان کرنے لگے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 329]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 330] » یہ روایت مرسل ہے، اور [حلية الأولياء 5/4] میں بھی اسی طرح منقول ہے۔
کعب نے کہا: دنیا ملعونہ ہے اور جو اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے خیر کے سیکھنے اور سکھانے والے کے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 330]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن يحيى بن يمان حسن الحديث فيما لم يخالف فيه، [مكتبه الشامله نمبر: 331] » اس روایت کی سند حسن، اور کعب پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2322] ، [ابن ماجه 4112] ، [مصنف ابن أبى شيبه 7277] ، [شعب الإيمان 1708] وغیرہم، لیکن یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بھی مروی ہے، اور امام ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے، الفاظ یہ ہیں: «الدُّنْيَا مَلْعُوْنَةٌ، مَلْعُوْنٌ مَا فَيْهَا إِلَّا ذِكْرِ اللهِ وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّم» ۔
وضاحت: (تشریح احادیث 328 سے 330) ملعون سے مراد یہ ہے کہ عالم و متعلم کے علاوہ سب اللہ کی رحمت سے دور ہیں۔
خالد بن معدان نے فرمایا: لوگ یا تو عالم ہیں یا متعلم، اور ان دونوں کے درمیان جو ہیں وہ رذیل لوگ ہیں، جن میں کوئی خیر نہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 331]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 332] » اس اثر کی سند میں محمد بن کثیر بن ابی عطاء ضعیف ہیں، لیکن اس کا شاہد موجود ہے اس لئے معنی صحیح، اور اس کی نسبت معدان کی طرف درست ہے۔ دیکھے: [الزهد لأحمد ص: 136] ، [جامع بيان العلم 114] ، [مجمع الزوائد 503، 505]
ہشام نے روایت کیا کہ حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگ کہتے تھے کہ عالم کی موت اسلام میں ایک شگاف ہے، جس کو رہتی دنیا تک کوئی چیز بند نہ کر سکے گی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 332]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 333] » اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن یہ حسن رحمہ اللہ کا قول ہے حدیث نہیں ہے۔ سیدہ عائشہ اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی مروی ہے، لیکن سنداً ضعیف ہے۔ دیکھئے: [الزهد لأحمد ص: 262] ، [جامع بيان العلم 1021] ، [شعب الإيمان 1719] ، [المقاصد الحسنه 79] ، [كشف الخفاء 273] وغيرهم۔
وہب بن منبہ نے فرمایا: میرے نزدیک ایسی مجلس جس میں علم کے بارے میں مناقشہ ہو، اسی قدر نماز سے زیادہ پسندیدہ و محبوب ہے، اس لئے کہ شاید ان میں سے کوئی ایسا کلمہ سن لے جو اس کو سال بھر یا باقی ماندہ عمر میں فائدہ دے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 333]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 334] » اس اثر کی سند صحیح ہے «وانفرد به الدارمي» ۔
وضاحت: (تشریح احادیث 330 سے 333) اس کا مطلب یہ ہے کہ علم سیکھنا اور سکھانا نفلی نماز سے بہتر ہے جس کا فائدہ دوسرے لوگوں تک ممتد ہے اور نماز صرف اپنے لئے فائدہ مند ہے۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص کے ساتھ الله تعالیٰ بھلائی چاہے اس کے لئے علم حاصل کرنے اور اس کے حفظ سے بہتر کوئی عمل نہیں جانتا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 334]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 335] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 363/6] ، [جامع بيان العلم 99، 100] اس میں ہے: «لَيْسَ عَمَلَ بَعْدَ الْفَرَائِضِ أَفْضَلَ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ» یعنی فرائض کے بعد طلب علم سے بہتر کوئی عمل نہیں۔
حسن بن صالح نے فرمایا: لوگ یقیناً اپنے دینی معاملات میں اسی طرح اس علم کے محتاج ہوں گے جس طرح اپنی دنیا میں کھانے پینے کے محتاج ہوتے ہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 335]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 336] » اس کی سند صحیح مثل سابق ہے۔ نیز دیکھئے: [شرف أصحاب الحديث 178]
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم حاصل کرو، اس سے قبل کہ وہ سمیٹ لیا جائے، بیشک علم کا سمٹنا علماء کا سمٹ جانا (ختم ہو جانا) ہے، یقیناً عالم اور متعلم (طالب علم) اجر میں برابر ہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 336]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 337] » اس اثر کی سند میں انقطاع ہے، لیکن شاہد موجود ہے، جیسا کہ رقم (251، 252) میں گزر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن أبى شيبه 6172]
ضحاک رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ آیت شریفہ: «﴿وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ ....﴾»[آل عمران: 79/3] کا مطلب ہے کہ جو بھی قرآن پڑھے اس پر واجب ہے کہ وہ فقیہ (یعنی عالم ربانی) بنے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 337]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 338] » اس اثر کے رواۃ ثقات ہیں۔ دیکھئے: [تفسير ابن كثير 55/2] ، [الدر المنثور 47/2] ، [تفسير الطبري 325/3] ، [الفقيه 51/1] و [تهذيب الكمال 296/13]
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے اس آیت: «﴿لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ ....﴾»[المائدة: 63/5]”انہیں ان کے عابد و عالم کیوں نہیں روکتے ہیں“ کی تفسیر میں فرمایا کہ «الربانيون» سے مراد حکماء اور علماء ہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 338]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف أشعث بن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 339] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور اس کو امام دارمی کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا ہے۔
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے «كونوا ربانيين»(تم سب رب کے ہو جاؤ) کے بارے میں کہا «ربانيين» سے مراد علماء و فقہاء ہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 339]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إلى قوله عليه الصلاة والسلام علماء فقهاء رجاله ثقات غير أن أبا إسحاق إبراهيم بن محمد ابن الحارث ليس مذكورا فيمن سمعوا من عطاء قبل اختلاطه. وإلى قوله عليه الصلاة والسلام " والنشر " اسناده صحيح. وإلى نهاية الحديث الشريف " أخشعهم لله عز وجل " إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 340] » اس روایت کے رواۃ ثقات ہیں۔ دیکھئے: [تفسير طبري 327/3] ، [شعب الإيمان 1856] و [الفقيه والمتفقه 51/1]
عبیدالله بن سعید نے کہا: میں نے سفیان بن عیینہ کو کہتے ہوئے سنا: علم سے مراد حفظ، عمل، استماع، خاموشی اور تبلیغ ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 340]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 341] » اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شعب الإيمان 1797] ، [الحلية 274/7] ، [الإلماع ص: 221] ، [جامع بيان العلم 760، 761]
وضاحت: (تشریح احادیث 333 سے 340) یعنی جو علم حاصل کرے اسے حفظ کر لے، اس پر عمل پیرا ہو، خاموشی سے سنے پھر اس کو دوسروں تک پہنچائے، تب عالم کہلائے گا ورنہ نہیں۔
سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو علم ہوتے ہوئے اسے چھوڑ دے (یعنی نہ عمل کرے نہ تبلیغ) اور سب سے بڑا عالم وہ ہے جو علم کے مطابق عمل کرے، اور لوگوں میں سب سے زیادہ اچھا وہ ہے جو الله عزوجل سے سب سے زیادہ خشیت والا ہو۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 341]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 342] » اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن دوسری جگہ نہیں مل سکی۔
وضاحت: (تشریح حدیث 340) اس قول میں «﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ﴾» کی تفسیر ہے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: دو حرص کرنے والے کبھی اکتاتے نہیں، ایک تو علم کا حریص جو علم سے کبھی اکتاتا نہیں، دوسرا دنیا کی چاہت رکھنے والا جو دنیا سے نہیں اکتاتا، پس جس آدمی کا ہم و ارادہ، اوڑھنا بچھونا اور چاہت و ذکر سب کچھ آخرت ہی ہو، اللہ اس کے ہر کام و کاروبار میں کافی ہو گا، اور اس کا غنیٰ اس کے دل میں ڈال دے گا، اور جس کا ہم و چاہت و محبت دنیا ہو اللہ اس کے کاروبار کو منتشر کر دے گا، اور اس کی غریبی و محتاجی کو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دے گا، پھر وہ صبح بھی فقیر ہو گا اور شام کو بھی فقیر ہو گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 342]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 343] » اس روایت کی سند حسن بصری تک صحیح ہے۔ نیز ابن عدی نے اس مرسل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے موصولاً روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [الكامل 2298/6] ، نیز اگلی روایت ملاحظہ فرمائیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دو حریص آدمی کبھی اکتاتے نہیں، ایک صاحب علم، دوسرا طالب دنیا اور دونوں برابر نہیں ہو سکتے، صاحب علم اللہ کی خوشنودی میں اضافہ کرتا ہے اور صاحب دنیا سرکشی و طغیانی میں پڑا ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی: «﴿كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى ٭ أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى﴾» [العلق: 6/96، 7] سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے، وہ اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو بےپروا (یا تونگر) سمجھتا ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی اور نے کہا: «﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ...﴾»[فاطر: 28/35]”بیشک الله تعالیٰ سے اس کے عالم بندے ہی ڈرتے ہیں۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 343]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده منقطع: عون بن عبد الله بن عتبة أرسل عن ابن مسعود وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 344] » اس اثر کی سند منقطع ہے، اور [معجم طبراني 223/10، 10388] میں موصولاً مذکور ہے۔ لیکن وہ بھی سنداً ضعیف ہے۔ [معجم طبراني 76/11-77، 11095] میں ایک اور شاہد ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے، لیکن دوسرے شواہد بھی ہیں۔ دیکھئے: [حديث ابن عباس رقم 346] ، [مصنف ابن أبى شيبه 6169] ، [جامع بيان العلم 583] ، [العلم لأبي خيثمه 141] ، [المقاصد 1206] وغيرها۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: «﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾»[فاطر: 28/35] جو اللہ سے ڈرے وہ عالم ہے۔ دو حریص آدمی کبھی آسودہ نہیں ہو سکتے، طالب علم اور طالب دنیا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 344]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناد هذا الأثر علتان: ضعف محمد بن حميد واضطراب رواية سماك عن عكرمة، [مكتبه الشامله نمبر: 345] » اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن معنی بالکل صحیح ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 132/22] ، [الدر المنثور 250/5] جس میں اس کے بہت سے شواہد مذکور ہیں۔ نیز دیکھئے: [جامع بيان العلم 1195، 1544، 1545]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: دو مشتاق (حریص) آدمی کبھی اکتاتے نہیں، طالب علم اور طالب دنیا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 345]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 346] » اس اثر کی سند ضعیف ہے، اس کی تخریج اثر رقم (344) میں گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6169] ، [جامع بيان العلم 583] ، [العلم 141]
سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے علم طلب کیا اور اسے حاصل بھی کر لیا، تو اس کے لئے دو گنا اجر ہے، اور اگر علم حاصل نہ کر سکا تو بھی اس کے لئے ایک حصہ اجر ہے۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 346]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «يزيد بن ربيعة الصنعاني قال أبو حاتم: منكر الحديث واهي الحديث، [مكتبه الشامله نمبر: 347] » اس حدیث کی سند میں یزید بن ربیعہ متروک و منکر الحدیث ہیں، گرچہ یہ روایت [معجم الطبراني: 68/22، 165] ، [جامع بيان العلم 213] ، [الفقيه 85/2] ، [مسند الشهاب 481] ، [فوائد تمام 1513] وغیرہ میں موجود ہے، لیکن سب کے طرق ضعیف ہیں۔
عباس العمي نے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ نبی داؤد علیہ السلام اپنی دعا میں کہا کرتے تھے: اے اللہ! تو پاک ہے (ہر عیب سے)، تو میرا رب ہے، عرش کے اوپر جلوہ افروز ہے، اور تو نے اپنی خشیت ان لوگوں میں پیدا کر دی ہے جو زمین و آسمان میں ہیں، پس مقام و مرتبے میں تیری مخلوق میں تیرے قریب ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ تیری خشیت و خوف والا ہے، اور وہ علم ہی کیا جو تجھ سے نہ ڈرے، اور وہ حکمت کیسی جو تیرے حکم کی پیروی نہ کرے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 347]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «عباس العمي مجهول وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 348] » اس روایت کی سند میں عباس العمي مجہول ہیں، باقی رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 9430] ، [الدر المنثور 250/5]
ضحاک رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا تو عالم بنو یا متعلم، اور ان دونوں کے علاوہ کسی میں خیر نہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 348]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده منقطع لم يسمع الضحاك بن مزاحم من ابن مسعود ورجاله ثقات: أبو الهزهاز هو نصر بن زياد العجلي، [مكتبه الشامله نمبر: 349] » اس اثر کی سند میں انقطاع ہے، ضحاک بن مزاحم نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا، باقی رجال ثقات ہیں، اور یہ اثر شاہد کی بنا پر صحیح ہے جو رقم (254) میں گزر چکا ہے۔
سیدنا ابوامامۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب اتنے فتنے رونما ہوں گے جس میں صبح کو آدمی مومن ہو گا تو شام میں کافر ہو جائے گا، سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ علم کے ساتھ زندہ رکھے۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 349]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف علي بن يزيد، [مكتبه الشامله نمبر: 350] » اس روایت کی سند علی بن یزید کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [ابن ماجه 3954] ، [المعجم الكبير 278/8، 7910] ، [كنز العمال 30883]
وضاحت: (تشریح احادیث 341 سے 349) یعنی علم کی وجہ سے انسان فتنوں سے محفوظ رہے گا، اور فتنوں سے مراد ہر قسم کے فتنے ہیں جو دین، ایمان اور عقیدے سے بھی تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا انسان کو کتاب و سنّت کا علم ضرور حاصل کرنا چاہئے۔
ہارون بن رباب نے کہا سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: یا عالم بنو یا متعلم، ان دونوں کے درمیانی نہ بنو اس لئے کہ ان دونوں کے درمیان (کے لوگ) جاہل ہیں۔ بیشک فرشتے ایسے آدمی کے فعل سے خوش ہو کر اس کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں جو علم حاصل کرنے کے لئے نکلتا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 350]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع هارون بن رئاب لم يدرك ابن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 351] » اس اثر کی سند کے سب رواة ثقات ہیں، لیکن ہارون بن رباب نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا، اس لیے یہ روایت منقطع ہے۔ دیکھئے: [المعرفة والتاريخ 399/3] ، [جامع بيان العلم 146] اس کا شاہد صحیح موجود ہے۔ دیکھئے: اثر رقم (254)۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کے بارے میں دریافت کیا گیا، ایک ان میں سے عالم تھا جو نماز پڑھتا اور پھر بیٹھ کر لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا، دوسرا آدمی دن کو روزے رکھتا اور رات میں قیام کرتا، ان دونوں میں سے کون افضل ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عالم کی فضیلت جو نماز پڑھتا ہے اور پھر بیٹھ کر لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے، اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا اور رات میں تہجد پڑھتا ہے، ایسی ہی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ایک ادنیٰ آدمی پر ہے۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 351]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع: ما عرفنا للأوزاعي رواية عن الحسن وهو مرسل أيضا، [مكتبه الشامله نمبر: 352] » اس روایت کی سند میں انقطاع اور ارسال ہے، اوزاعی کا لقاء حسن بصری سے ثابت نہیں، اور حسن بصری نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ۔
وضاحت: (تشریح احادیث 349 سے 351) یہ حسن بصری کا قول ہے، اس سے معلوم ہوا کہ عبادت کے ساتھ تعلیم دینا بہت کارِ فضیلت ہے، اور ایسا معلم عابد سے بہت زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے کہا: میں مسجد میں داخل ہوا (تو دیکھا) اسود بن سریع قصہ بیان کر رہے ہیں، اور حمید بن عبدالرحمٰن مسجد کے ایک گوشے میں علمی گفتگو کر رہے ہیں، مجھے تردد ہوا کہ کون سے حلقے میں جا کر بیٹھوں؟ مجھے اونگھ آ گئی اور ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: تمہیں تردد ہے کہ کہاں بیٹھو؟ اگر تم چاہو تو میں تمہیں حمید بن عبدالرحمٰن کے حلقے میں جبریل علیہ السلام کے بیٹھنے کی جگہ بتاؤں؟ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 352]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف الحسن بن ذكوان متهم بالتدليس وقد عنعن وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 353] » اس روایت میں حسن بن ذکوان مدلس ہیں، اور روایت معنعن ہے، ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 219] میں اسے ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 351) اس سے معلوم ہوا علمی مجالس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، گرچہ یہ ابن سیرین کا قول ہے لیکن حدیث: «مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ» سے اس کی تائید ہوتی ہے جو رقم (367) پرآگے آرہی ہے۔
کثیر بن قیس نے کہا: میں سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اے ابودرداء! میں آپ کے پاس مدينۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آیا ہوں اس حدیث کے لئے جس کے بارے میں مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ (اسے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: تم تجارت کے واسطے آئے ہو؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: اور کوئی چیز بھی تمہیں یہاں نہیں لائی؟ کہا: نہیں، فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے ہیں: ”جو شخص کسی راستے میں علم کی تلاش میں نکلا تو الله تعالیٰ اس کے لئے اس کے ذریعہ جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ آسان فرما دیتا ہے، اور بیشک فرشتے طالب علم سے خوش ہو کر اس کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں، اور بیشک طالب علم کے لئے جو زمین آسمان میں ہیں مغفرت طلب کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں بھی پانی میں (طالب علم کے لئے مغفرت طلب کرتی ہیں) اور بیشک عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں، انبیاء نے یقیناً دینار و درہم کا ورثہ نہیں چھوڑا بلکہ علم کا ورثہ چھوڑا ہے، پس جس نے علم حاصل کیا اس نے اپنا نصیب یا وافر نصیب حاصل کر لیا۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 353]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 354] » اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3641] ، [ترمذي 2682] ، [ابن ماجه 223] ، [مسند أحمد 196/5] ، [مشكل الآثار 429/1] ، [جامع بيان العلم 173، 174] ، [سنن البيهقي 1697] ، [الترغيب والترهيب 94/1] وغيرهم۔
وضاحت: (تشریح حدیث 352) اس حدیث میں علم اور عالم اور متعلم کی فضیلت بیان کی گئی ہے جس کے لئے زمین و آسمان کی تمام مخلوق استغفار کرتی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بھلائی کی تعلیم دینے والے کے لئے ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے، حتی کہ سمندر کی مچھلیاں بھی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 354]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد وهو موقوف على ابن عباس، [مكتبه الشامله نمبر: 355] » یہ سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے اور اُن تک سند جید ہے، مرفوع روایت بھی موجود ہے جیسا کہ گذر چکا ہے، حوالہ کے لئے دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6164] و [جامع بيان العلم 796]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی آدمی علم کی طلب میں کسی راستے میں چلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس ذریعہ سے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے، اور جس کے ساتھ اس کے عمل نے دیر لگائی تو اس کے ساتھ اس کا نسب کچھ جلدی نہیں کرے گا۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 355]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 356] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 2999] ، [أبوداؤد 3643] ، [ترمذي 2648] ، [مصنف ابن أبى شيبه 6168]
وضاحت: (تشریح احادیث 353 سے 355) یعنی عملِ صالح کے بغیر نسب کام نہ آئے گا۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نہیں چلا کوئی آدمی علم کی تلاش میں کوئی راستہ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ جنت کا راستہ اس کے لئے آسان فرما دیا، اور جس کے ساتھ اس کے عمل نے تاخیر کی، اس کا عمل اس کے لئے جلدی نہ کرے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 356]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 357] » اس اثر کی سند صحیح ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے۔ مزید دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6165] ، [شعب الإيمان 671]
مطر الوراق نے کہا: آیت شریفہ: «﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ﴾»[القمر: 17/54] کا مطلب ہے: کوئی طالب خیر ہے جس کی اعانت و مدد کی جائے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 357]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 358] » اس کی سند میں محمد بن کثير ضعیف ہے۔ دیکھئے [تفسير طبري 96/27]
مروان سے روایت ہے ضمرة نے کہا: اس «(مُدَّكِّر)» سے مراد طالب علم ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 358]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 359] » اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [تفسير ابن كثير 453/7] ، [تفسير الطبري 97/27] ، [الدر المنثور 135/6] وغيرهم۔ نیز امام بخاری نے [بخاري 7551] سے قبل بھی اس اثر کو تعليقاً ذکر کیا ہے، حافظ ابن حجر نے [فتح الباري 521/13] میں کہا کہ فریابی نے اسے موصولاً ذکر کیا ہے۔
عامر بن ابراہیم سے مروی ہے کہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب طلاب العلم کو دیکھتے تو فرماتے «مرحبا بطلبة العلم» طلاب العلم کو مرحبا (خوش آمدید) کہتے اور فرماتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے بارے میں وصیت کی ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 359]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 360] » یہ روایت معضل ہے، اور اس کے دو شاہد ہیں۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 20] و [شعب الايمان 1729] اس لئے قابل حجت ہوسکتی ہے۔
سیدنا عبدالله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں دو حلقوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: دونوں ہی خیر پر ہیں لیکن ایک مجلس دوسری مجلس سے افضل ہے، ایک مجلس کے لوگ اللہ تعالیٰ سے دعائیں اور التجائیں کر رہے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو عطاء فرما دے اور چاہے تو محروم رکھے، دوسری مجلس کے لوگ علم و فقہ سیکھ رہے ہیں اور جاہل کو سکھا رہے ہیں، اس لئے یہ افضل ہیں، اور میں بھی تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔“ راوی نے کہا پھر آپ بھی ان کے ساتھ تشریف فرما ہوئے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 360]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناده ضعيفان: عبد الرحمن بن زياد وعبد الرحمن بن رافع، [مكتبه الشامله نمبر: 361] » اس حدیث کی سند میں عبدالرحمٰن بن زیاد اور عبدالرحمٰن بن رافع ضعیف ہیں، اس روایت کو ابن المبارک نے [ الزهد 1389] میں اور انہیں کے طریق سے طیالسی نے [المسند 82] میں اور خطیب نے [الفقيه والمتفقه 10/1] میں ذکر کیا ہے، ابن ماجہ نے بھی [سنن 229] میں اس کو ذکر کیا ہے، لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
مطرف بن عبداللہ الشخیر نے اپنے بیٹے سے کہا: بیٹے! علم عمل سے بہتر ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 361]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده فيه علتان: ضعف عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي والانقطاع عون بن عبد الله لا نعلم له رواية عن مطرف، [مكتبه الشامله نمبر: 362] » عبدالرحمٰن بن عبدالله المسعودی اس روایت میں ضعیف ہیں، اور عون کا لقاء مطرف سے ثابت نہیں، لیکن [حلية الأولياء 209/2] میں اس کا صحیح شاہد موجود ہے، جس سے مطرف کے اس کلام کو تقویت ملتی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 355 سے 361) یعنی عمل و عبادت اگر علم و بصیرت کے ساتھ ہو تو اس میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔
شرحبیل بن شریک نے ابوعبدالرحمٰن حبلی کو کہتے ہوئے سنا: تم اپنے بھائی کو حکمت کی بات کا جو ہدیہ دیتے ہو اس سے بہتر کوئی ہدیہ نہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 362]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 363] » اس قول کی سند صحیح ہے لیکن کہیں اور نہ مل سکی، نیز اس کے شواہد ملتے ہیں لیکن وہ بھی ضعف سے خالی نہیں۔ دیکھئے: [شعب الايمان 1764] ، [جامع بيان العلم 323] ، [المقاصد الحسنة 938] ، [كشف الخفاء 2182] ، [معجم الطبراني الكبير 43/12، 12420]
امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: عالم کی مجتہد پر فضیلت سو درجہ زیادہ ہے، اور ہر دو درجوں کے درمیان تیز دوڑنے والے مضمّر گھوڑوں کی پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ (مضمّر وہ گھوڑا جس کو (ریسں) دوڑ کے لئے تیار کیا جائے)۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 363]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده إلى الزهري ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 364] » یہ امام زہری رحمہ اللہ کا قول ہے جو سند کے لحاظ سے ضعیف ہے۔ [حلية الأولياء 365/3] میں مذکور ہے لیکن اس کی سند بھی کمزور ہے۔
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: «﴿يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ....﴾»[المجادلة: 11/58] سے مراد وہ اہل علم ہیں جن کے درجات اللہ تعالیٰ اہل ایمان پر بلند فرمائے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 364]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 365] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 481/2 وقال الحاكم: هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه]
حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کی موت اس حال میں آئے کہ وہ احیائے اسلام کے لئے علم کی تلاش میں ہو تو انبیاء اور اس کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہو گا۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 365]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده مسلسل بالمجاهيل، [مكتبه الشامله نمبر: 366] » حسن بصری رحمہ اللہ کی طرف منسوب اس قول میں کئی راوی مجہول ہیں، اور دیگر کتب میں بھی یہ اثر منقول ہے، لیکن سب کے طرق ضعیف ہیں۔ دیکھے: [المعجم الأوسط 9450] ، [تاريخ بغداد 78/3] و [مجمع الزوائد 511]
عمرو بن میمون رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ علم کے دو ثلث لے گئے، عمرو نے کہا یہ بات ابراہیم نخعی سے ذکر کی گئی تو انہوں نے فرمایا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ علم کے دس میں سے نو حصے لے گئے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 366]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناده علتان: ضعف محمد بن حميد وأبو سنان سعيد بن سنان متأخر السماع من أبي إسحاق السبيعي، [مكتبه الشامله نمبر: 367] » اس روایت میں محمد بن حمید ضعیف اور ابوسنان سعید بن سنان کا ابواسحاق سبیعی سے سماع مؤخر ہے، اور اس روایت کو امام دارمی کے علاوہ کسی محدث نے ذکر نہیں کیا، البتہ ابراہیم نخعی کا قول ابوخیثمہ کی کتاب [العلم 61] میں مذکور ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوں، اللہ کی کتاب پڑھیں (دہرائیں) اور دوسروں کو پڑھائیں تو فرشتے ان کو اپنے پروں کے سایہ میں لے لیتے ہیں یہاں تک کہ وہ دوسری باتوں میں لگ جائیں۔ اور جو شخص علم حاصل کرنے کی راہ چلے، الله تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ سہل کر دے گا، اور جس کا عمل کوتاہی کرے تو اس کا نسب (خاندان) کچھ کام نہ آوے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 367]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 368] » اس اثر کی سند صحیح ہے، اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موصولاً بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 2699] ، [ابوداؤد 1455] ، [ترمذي 2945] ، [شعب الإيمان 671] ۔ نیز دیکھئے: اثر رقم (357)۔
ذِرّ سے مروی ہے کہ میں صفوان بن عسال مرادی کے پاس گیا (کیونکہ) میں ان سے جرابوں پر مسح کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا، انہوں نے فرمایا: تمہیں میرے پاس کیا چیز لائی ہے؟ میں نے کہا: علم کی تلاش، انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں خوشخبری نہ سنا دوں؟ میں نے عرض کیا: ضرور سنایئے، تو انہوں نے مرفوعاً بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک فرشتے علم طلب کرنے والے کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، جو وہ طلب کر رہا ہے اس سے پسندیدگی کے طور پر۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 368]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 369] » اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان 1319] ، [مسند الحميدي 906] ، [العلم لأبي خيثمه 5]
وضاحت: (تشریح احادیث 361 سے 368) ان تمام روایات سے علم حاصل کرنے کی ترغیب اور عالمِ دین کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔