سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ کے باغوں میں سے ایک باغ کی طرف حاجت کی غرض سے نکلے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہو گئے تو میں دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا: آج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے بغیر ہی ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا در بان بنوں گا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باغ کے اندر چلے گئے اور حاجت پوری کرنے کے بعد کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے اور پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا کر پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آ گئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی۔ میں نے کہا: رکیے، یہاں تک کہ میں آپ کے لیے اجازت مانگ لوں، چنانچہ وہ رک گئے اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوبکر آپ کے پاس آنے کی اجازت مانگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی سنا دو۔“ چنانچہ وہ اندر آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب بیٹھ گئے، اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا کر دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو انہیں بھی میں نے کہا کہ رکیے، یہاں تک کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہارے لیے اجازت طلب کروں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اندر آنے کی اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دو۔“ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب آئے اور پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا کر پاؤں کنویں میں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ منڈیر بھر گئی اور اس میں کوئی جگہ نہ بچی۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے کہا: اپنی جگہ پر ٹھہریے، یہاں تک کہ میں آپ کے لیے اجازت طلب کروں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اجازت دے دیں اور جنت کی بشارت دے دیں اور اس کے ساتھ آزمائش بھی ہوگی۔“ چنانچہ وہ داخل ہوئے اور ان کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ نہ پائی تو دوسری طرف سے آ کر ان کے سامنے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا کر دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ میں خواہش کرنے لگا کہ میرا بھائی آجائے اور میں اللہ سے دعا کرنے لگا کہ وہ اسے لے آئے، لیکن وہ اس وقت آیا جب وہ اٹھ گئے۔ ابن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے یہ تعبیر کی کہ ان تینوں کی قبریں اکٹھی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی قبر علیحدہ ہوگی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْمَجَالِسِ/حدیث: 1151]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الفتن: 7097 و مسلم: 2177»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے کسی حصے میں باہر نکلے۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے کوئی بات کرتے اور نہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات کی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قینقاع کے بازار میں آئے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے صحن میں آکر بیٹھ گئے اور فرمایا: ”کیا یہاں چھوٹے صاحب ہیں، کیا یہاں چھوٹے صاحب ہیں۔“ چنانچہ انہیں (سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو) ان کی والدہ نے کسی ضرورت سے روک لیا۔ میں نے خیال کیا کہ ان کی والدہ ان کو ہار پہنا رہی ہیں یا نہلا رہی ہیں۔ پھر وہ دوڑتے ہوئے آئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے سے لپٹ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بوسہ دیا اور فرمایا: ”اے اللہ! تو اس سے محبت فرما اور اس سے بھی محبت فرما جو اس سے محبت کرے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْمَجَالِسِ/حدیث: 1152]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب البيوع: 2122 و مسلم: 2421»