سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور ہم دونوں گھڑ سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چلتے رہو یہاں تک کہ تم فلاں فلاں جگہ روضہ خاخ پہنچ جاؤ۔ وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا مشرکین کے نام خط ہے۔ اسے میرے پاس لاؤ۔“ ہم نے اسے اس حال میں جا پکڑا کہ وہ اپنے اسی طرح کے اونٹ پر سوار تھی جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا۔ ہم نے کہا: تیرے پاس جو خط ہے وہ نکالو۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کی اور اس کے اونٹ کی تلاشی لی (تو کچھ نہ ملا)، میرے ساتھی نے کہا: میرا خیال ہے اس کے پاس نہیں ہے۔ میں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ نہیں بولا۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، خط نکالو ورنہ میں تجھے ننگا کر دوں گا۔ اس نے اپنے ازار باندھنے کی جگہ (نیفہ) کی طرف ہاتھ بڑھایا اور خط نکال دیا۔ اس پر اون کا تہبند تھا۔ چنانچہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس نے اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(حاطب!) تم نے ایسا کیوں کیا؟“ تب انہوں (سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ) نے کہا: میرے دل میں اللہ تعالیٰ پر ایمان کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میرا صرف یہ مقصد تھا کہ میرا ان لوگوں (مشرکین) پر احسان ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عمر! اس نے سچ کہا ہے۔ کیا یہ بدر میں شریک نہیں تھا؟ اللہ تعالیٰ کو سب بدر والوں کا حال معلوم ہے، اس لیے ان کے بارے میں فرمایا: تم جو چاہو عمل کرو یقیناً تمہارے لیے جنت واجب ہو گئی ہے۔“(یہ سن کر) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السِّبَابِ/حدیث: 438]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجهاد والسير: 3007، 3081 و مسلم: 2494 و أبوداؤد: 2651 و الترمذي: 3305 و النسائي فى الكبرىٰ: 11521»