سیدنا براء (بن عازب) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ تو نے بات تو مختصر کی ہے لیکن تیرا سوال معنی خیز ہے، یعنی تو نے لمبا چوڑا سوال اس میں سمو دیا ہے۔“(پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:)”جان کو آزاد کرو، گردن کو چھڑاؤ۔“ اس نے کہا: کیا یہ دونوں ایک ہی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جان آزاد کرنا یہ ہے کہ تو کسی غلام کو آزاد کرے اور گردن چھڑانا یہ ہے کہ تو کسی غلام کی آزادی میں معاونت کرے۔“(پھر فرمایا:)”کسی کو دودھ والا ایسا جانور دو جس میں رغبت کی جاتی ہو، قرابت دار پر مہربانی اور شفقت کرو، اور اگر تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تو نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، اور اگر اس کی طاقت نہیں تو زبان کو بھلائی (کی بات کرنے) کے علاوہ روک کر رکھو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 69]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 18647 و الطيالسي: 739 و ابن حبان: 374 و المروزي فى البر والصلة: 276 و البيهقي فى الأدب: 77 - صحيح الترغيب: 898»