سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ: «إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ٭ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا»[الاسراء: 23، 24]”اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہہ اور انہیں مت جھڑک، اور ان سے بہت احترام والی (ادب و احترام سے) بات کر۔ اور ان کے سامنے رحم دلی سے عاجزی کے ساتھ اپنا بازو (پہلو) جھکائے رکھ اور کہہ: میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔“ کے بارے میں فرمایا کہ اس آیت کو سورۂ براءت والی آیت: «مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ»[التوبة: 113]”نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں، ان کے متعلق یہ واضح ہو جانے کے بعد کہ وہ بلاشبہ دوزخی ہیں۔“ نے منسوخ کر دیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 23]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الطبراني فى تفسيره: 421/17»