طیسلہ بن میاس کہتے ہیں کہ میں خارجیوں کے ساتھ تھا، مجھ سے کچھ گناہ سرزد ہو گئے جنہیں میں کبیرہ گناہ سمجھتا تھا۔ میں نے ان کا ذکر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے کہا: وہ کیا ہیں؟ میں نے کہا: فلاں فلاں۔ انہوں نے فرمایا: یہ کبیرہ نہیں ہیں، کبیرہ تو صرف نو ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، (ناحق) کسی جان کو قتل کرنا، میدان جنگ سے بھاگنا، کسی پاک دامن عورت پر تہمت لگانا، سود کھانا، یتیم کا مال ہتھیانا، مسجد میں خلاف شرع کام کرنا، کسی سے ٹھٹھا مذاق کرنا، والدین کی نافرمانی کر کے انہیں رلانا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے کہا: کیا تو آگ سے ڈرتا اور جنت میں داخل ہونا پسند کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم! انہوں نے فرمایا: کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ میں نے کہا: میری ماں زندہ ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تو اس سے نرمی سے گفتگو کرے گا، اور اسے کھانا کھلائے گا، اور کبیرہ گناہوں سے بھی پچھتا رہے گا تو ضرور جنت میں داخل ہو گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 8]
حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے قرآن مجید کی آیت: «وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ»[الإسراء: 24] کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: (اس کا مطلب ہے) کہ جو بات انہیں محبوب ہو اسے بجا لاؤ اور اس کے خلاف نہ کرو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 9]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن وهب فى الجامع: 118 و المروزي فى البر والصلة: 12 و هناد فى الزهد: 967 و ابن أبى الدنيا فى مكارم الاخلاق: 222»