سیدہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث انصاری رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: انہیں قرآن یاد تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت غزوہ بدر کے لیے جانے لگے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ جاؤں؟ میں آپ کے زخمیوں اور مریضوں کا علاج معالجہ اور تیمارداری کروں گی، ہو سکتا ہے کہ مجھے شہادت نصیب ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اللہ نے تمہارے لیے شہادت لکھ دی ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں شہیدہ کہا کرتے تھے اور آپ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرائیں، ان کا ایک مؤذن تھا، وہ اپنے گھر والوں کی امامت کراتی رہیں حتیٰ کہ ان کی لونڈی اور ان کے غلام نے ان کا گلا گھونٹ دیا، انہوں نے ان دونوں سے کہہ رکھا تھا کہ میری وفات کے بعد وہ آزاد ہوں گے، ان دونوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں انہیں قتل کیا تھا، مشہور ہو گیا کہ ام ورقہ کو قتل کر دیا گیا ہے، ان کے غلام اور ان کی لونڈی نے انہیں قتل کیا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کیا: ام ورقہ کی لونڈی اور ان کے غلام نے ان کا گلا گھونٹ کر قتل کر دیا ہے اور وہ دونوں بھاگ گئے ہیں، پس انہیں لایا گیا اور انہیں سولی چڑھایا گیا، اور وہ دونوں پہلے ہیں جنہیں مدینہ منورہ میں پھانسی دی گئی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”ہمارے ساتھ چلو، ہم شہیدہ سے ملیں گے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الجهاد/حدیث: 530]
تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الصلاة، باب امامة النساء، رقم: 591 . قال الشيخ الالباني: حسن . مسند احمد: 405/6 . معجم طبراني كبير: 326/24/25 . سنن كبري بيهقي: 130/3 .»