سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز عشاء کو مؤخر کیا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آواز دی: (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) نماز، خواتین اور بچے تو سو چکے، پس آپ باہر تشریف لائے جبکہ آپ کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”(نماز عشاء کا) یہی وقت ہے، اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ سمجھتا۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الصلوٰة/حدیث: 205]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب مواقيت الصلاة، باب النوم قبل العشاء الخ، رقم: 569 . مسلم، كتاب المساجد، باب وقت العشاء وتاخيرها، رقم: 642 . سنن ابن خزيمه، رقم: 342 . سنن كبري بيهقي: 449/1 .»
ابن جریج نے بیان کیا، میں نے عطاء رحمہ اللہ سے کہا: آپ کو امام اور اکیلے نماز عشاء کس وقت پڑھنا زیادہ محبوب ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا: ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء کو مؤخر کیا، حتیٰ کہ لوگ سو گئے، پھر بیدار ہوئے، پھر سو گئے پھر بیدار ہوئے، پھر سو گئے، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: نماز، نماز، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: گویا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہا ہوں اور آپ کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے ہیں، آپ اپنا دست مبارک اپنے سر پر رکھے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں: ”اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ سمجھتا تو میں انہیں حکم فرماتا کہ وہ اس طرح (اس وقت پر) نماز پڑھیں۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الصلوٰة/حدیث: 206]