سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور انہیں کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا، ان میں سے ایک چغل خور تھا، جبکہ دوسرا اپنے پیشاب سے بچاؤ نہیں کرتا تھا۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی سبز شاخ منگوائی، اس کے دو حصے کیے، پھر ایک اس پر گاڑ دیا اور ایک اس پر، اور فرمایا: ”امید ہے جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی ان سے عذاب کم کر دیا جائے گا۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الطهارة /حدیث: 116]
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الوضو، باب ماجا فى غسل اليوم، رقم: 218 . مسلم، كتاب الطهارة، باب الدليل على نجاسة البول الخ، رقم: 292 . سنن ابوداود، كتاب الطهارة، رقم: 20 سنن ترمذي، رقم: 70 . سنن نسائي، رقم: 31 . سنن ابن ماجه، رقم: 349 . مسند احمد: 225/1»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے، اور انہیں کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں ہو رہا“، پھر فرمایا: ”ہاں ان میں سے ایک۔“ راوی نے حدیث سابق کے مثل ذکر کیا۔ [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الطهارة /حدیث: 117]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ یا مدینہ کے کسی باغ کے پاس سے گزرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انسانوں کی آواز سنی کہ انہیں قبروں میں ان کو عذاب ہو رہا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں ہو رہا: ان میں سے ایک چغل خور تھا، جبکہ دوسرا پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تازہ شاخ لی اور اس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر ایک ایک حصہ رکھ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! آپ نے یہ کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے جب تک یہ خشک نہ ہوں ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کی جائے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب الطهارة /حدیث: 119]