7. اللہ تعالیٰ کے فرمان ((وان خفتم الّا ....)) اور ((ویستفتونک فی النّسآئ ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ النساء)۔
حدیث نمبر: 2129
سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان ”اگر تم ڈرو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند آئیں دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے“ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اے میرے بھانجے! اس آیت سے مراد وہ یتیم لڑکی ہے جو اپنے ولی کی گود میں ہو (یعنی پرورش میں جیسے چچا کی لڑکی بھتیجے کے پاس ہو) اور اس کے مال میں شریک ہو (مثلاً چچا کے مال میں)، پھر اس ولی کو اس کا مال اور حسن و جمال پسند آئے اور وہ اس سے نکاح کرنا چاہے لیکن اس کے مہر میں انصاف نہ کرے اور اتنا مہر نہ دے جو اور لوگ دینے کو مستعد ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کیا ہے مگر اس صورت میں (نکاح کرنا جائز ہے) جب وہ انصاف کریں اور مہر پورا دینے پر راضی ہوں اور ان کو حکم کیا کہ (ان کے علاوہ) دوسری عورتوں سے نکاح کریں جو ان کو پسند آئیں۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ لوگوں نے یہ آیت اترنے کے بعد پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لڑکیوں کے بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”تجھ سے عورتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو تم کہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے، اور جو کتاب میں ان یتیم عورتوں کے حق کے بارے میں پڑھا جاتا ہے جن کا مہر مقرر تم نہیں دیتے اور ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو“ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا تھا کہ ”اگر تمہیں اس بات کا خدشہ ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے، تو (ان کے علاوہ) جو عورتیں تمہیں پسند ہوں، ان سے نکاح کر لو۔ اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان دوسری آیت میں ”اور تم رغبت رکھتے ہو ان سے نکاح کی“ سے مراد تم میں سے کسی ایک کا اس یتیم لڑکی سے جو کہ تمہاری زیر پرورش ہو اور مال اور حسن و جمال میں کم ہو، نکاح نہ کرنے کا ارادہ مراد ہے۔ پس انہیں اس یتیم عورت سے جو کہ مال والی اور حسن و جمال والی ہو، نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا مگر اس صورت میں کہ جب انصاف کریں (یعنی ان کا حق مہر ان اور ان کا مال وغیرہ ان کو پورا دیں)۔ (اس کا مفہوم یہ ہے کہ شروع میں چونکہ لوگ ایسا کرتے تھے کہ وہ اس یتیم لڑکی سے جو ان کے زیر پرورش ہوتی تھی اور مالدار اور حسین و جمیل ہوتی تھی تو خود ہی ان سے نکاح کر لیتے لیکن ان کے مال میں خیانت کرتے اور مہر بھی پورا نہ دیتے۔ اس صورت میں سورت کے شروع والی آیت میں انہیں ان سے نکاح کرنے سے منع کر دیا لیکن جب صحابہ کرام نے ان کے ساتھ خود نکاح کرنے میں ان کے لئے بہتری کی صورت میں ان سے نکاح کرنے کے بارہ میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی دوسری آیت نمبر 127 نازل فرمائی کہ انصاف کے ساتھ نکاح کرنا چاہو تو جائز اور احسن اقدام ہے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 2129]