60. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا مومنین کے لئے رحمت ہے۔
حدیث نمبر: 1825
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور میں نہیں جانتی کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا باتیں کیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر لعنت کی اور ان کو برا کہا۔ جب وہ باہر نکلے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان دونوں کو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں؟ میں نے عرض کیا کہ اس وجہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لعنت کی اور ان کو برا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے معلوم نہیں جو میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے؟۔ میں نے عرض کیا ہے کہ اے میرے مالک! میں بشر ہوں، تو جس مسلمان پر میں لعنت کروں یا اس کو برا کہوں تو اس کو پاک کر اور ثواب دے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1825]
حدیث نمبر: 1826
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی، جس کو ام انس کہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو دیکھا تو فرمایا کہ! وہ لڑکی تو بڑی ہو گئی، اللہ کرے تیری عمر بڑی نہ ہو۔ وہ لڑکی یہ سن کر ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس روتی ہوئی گئی تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بیٹی تجھے کیا ہوا؟ وہ بولی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر بددعا کی کہ میری عمر بڑی نہ ہو۔ اب میں کبھی بڑی نہ ہوں گی یا یہ فرمایا کہ تیری ہمجولی بڑی نہ ہو۔ یہ سن کر سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے اپنی اوڑھنی اوڑھتی ہوئی نکلیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا ہے ام سلیم؟ وہ بولیں کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے میری یتیم لڑکی کو بددعا دی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا بددعا؟ وہ بولیں کہ وہ کہتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی یا اس کی ہمجولی کی عمردراز نہ ہو۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ اے ام سلیم! تو نہیں جانتی کہ میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے؟ میری شرط یہ ہے کہ میں نے عرض کیا کہ اے رب! میں ایک بشر ہوں اور خوش ہوتا ہوں جیسے آدمی خوش ہوتا ہے اور غصہ ہوتا ہوں جیسے آدمی غصہ ہوتا ہے، پس میں اپنی امت میں سے جس کسی پر بددعا کروں، ایسی بددعا جس کے وہ لائق نہیں تو اس کے لئے قیامت کے دن پاکی کرنا اور طہارت اور اپنا قرب عطا کرنا۔ اور ابومعن نے اس حدیث میں تینوں جگہ ”یتیمۃ“ کی بجائے ”یتیّمۃ“ تصغیر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1826]
حدیث نمبر: 1827
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اور میں ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست مبارک سے مجھے (پیار سے) تھپکا اور فرمایا کہ جا معاویہ کو بلا لا۔ میں گیا پھر لوٹ کر آیا اور میں نے کہا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ جا اور معاویہ کو بلا لا۔ میں پھر لوٹ کر آیا اور کہا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔ ابن مثنیٰ نے کہا کہ میں نے امیہ سے کہا کہ ”حطا“ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اس کا معنی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدی پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کو مارا۔ (یہ حدیث بھی اسی معنی میں ہے جیسے پچھلی احادیث میں گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ پر شرط لگائی ہے کہ اگر کسی کے لئے خلاف واقعہ کوئی بات کر دوں تو اس کے لئے رحمت ہو جائے۔ اس لئے یہ حدیث معاویہ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں ہے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1827]