1. سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1629
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے سونے کی حالت میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے لائے جاتے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں۔ بعض کے کرتے چھاتی تک ہیں اور بعض کے اس کے نیچے، پھر عمر رضی اللہ عنہ نکلے تو وہ اتنا نیچا کرتہ پہنے ہوئے تھے جو کہ زمین پر گھسٹتا جاتا تھا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1629]
حدیث نمبر: 1630
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سو رہا تھا اور سوتے میں ایک پیالہ میرے سامنے لایا گیا جس میں دودھ تھا۔ میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ تازگی اور سیرابی میرے ناخنوں سے نکلنے لگی۔ پھر جو بچا وہ میں نے عمر بن خطاب کو دیدیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تعبیر علم ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1630]
حدیث نمبر: 1631
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے آپ کو ایک کنوئیں پر دیکھا کہ اس پر ڈول پڑا ہوا ہے۔ پس میں نے اس ڈول سے پانی کھینچا جتنا کہ اللہ نے چاہا۔ پھر اس کو ابوقحافہ کے بیٹے یعنی صدیق اکبر نے لیا اور ایک یا دو ڈول نکالے اور ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اللہ تعالیٰ ان کو بخشے۔ پھر وہ ڈول پل یعنی بڑا ڈول ہو گیا اور اس کو عمر بن خطاب نے لیا، تو میں نے لوگوں میں ایسا سردار شہ زور نہیں دیکھا جو عمر کی طرح پانی کھینچتا ہو۔ انہوں نے اس کثرت سے پانی نکالا کہ لوگ اپنے اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے آرام کی جگہ لے گئے۔ (علماء نے بیان کیا ہے کہ اس خواب میں آپ کے بعد ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کی تمثیل و بشارت اور حالات کی پیشن گوئی ہے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1631]
حدیث نمبر: 1632
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سو رہا تھا اور میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا۔ وہاں ایک عورت ایک محل کے کونے میں وضو کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ (فرشتے) بولے کہ عمر بن خطاب کا۔ یہ سن کر مجھے اس کی غیرت کا خیال آیا اور میں پیٹھ موڑ کر لوٹ آیا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو رو دیئے اور ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجلس میں تھے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں یا رسول اللہ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا؟ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1632]
حدیث نمبر: 1633
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت مانگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت قریش کی عورتیں بیٹھی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہی تھیں اور بہت باتیں کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں بلند تھیں۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آواز دی تو اٹھ کر چھپنے کے لئے دوڑیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنستا رکھے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا جو میرے پاس بیٹھی تھیں، تمہاری آواز سنتے ہی پردے میں بھاگ گئیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ڈرنا چاہئے پھر ان عورتوں سے کہا کہ اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہ نسبت سخت ہو اور غصیلے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ شیطان جب تمہیں کسی راہ میں چلتا ہوا ملتا ہے تو اس راہ کو جس میں تم چلتے ہو چھوڑ کر دوسری راہ میں چلا جاتا ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1633]
حدیث نمبر: 1634
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے اگلی امتوں میں ایسے لوگ ہوا کرتے تھے جو ”محدث“(جن کی رائے ٹھیک ہوتی، گمان صحیح ہوتا یا فرشتے ان کو الہام کرتے) میری امت میں اگر ایسا کوئی ہو تو عمر بن الخطاب ہوں گے۔ ابن وہب نے کہا کہ محدثون کا معنی ”الہام والے“ ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1634]
حدیث نمبر: 1635
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تین باتوں میں اپنے رب کے موافق ہوا۔ ایک مقام ابراہیم میں نماز پڑھنے میں (جب میں نے رائے دی کہ یا رسول اللہ! آپ اس جگہ کو جائے نماز بنائیے تو ویسا ہی قرآن میں اترا) اور دوسرے عورتوں کے پردے کے بارے میں اور تیسرے بدر کے قیدیوں کے بارے میں۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1635]
حدیث نمبر: 1636
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مشہور منافق مرا تو اس کا بیٹا عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن ابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کرتہ میرے باپ کے کفن کے لئے دے دیجئیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیدیا۔ پھر اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز جنازہ پڑھا دیجئیے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز پڑھنے کو کھڑے ہوئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا تھاما اور فرمایا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ ”تو ان کے لئے دعا کرے یا نہ کرے، اگر ستر بار بھی دعا کرے گا تو بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشے گا“(التوبہ: 80) تو میں ستر بار سے زیادہ دعا کروں گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیشک وہ منافق تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔ تب یہ آیت اتری کہ ”مت نماز پڑھ کسی منافق پر جو مر جائے اور مت کھڑا ہو اس کی قبر پر“(التوبہ: 84)۔ (تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کیا)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1636]