52. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اللہ تعالیٰ کے قول ((ولا تسلوا عن اشیائ ان تبدلکم تسکم)) کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 1598
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی کوئی بات سنی (جو بری تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ میرے سامنے جنت اور دوزخ لائی گئی اور میں نے آج کی سی بہتری اور آج کی سی برائی کبھی نہیں دیکھی (یعنی جنت میں نعمتیں اور دوزخ میں عذاب)۔ اگر تم وہ کچھ جانتے جو میں جانتا ہوں تو البتہ تم لوگ کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم پر اس دن سے زیادہ کوئی سخت دن نہیں گزرا۔ انہوں نے اپنے سروں کو چھپا لیا اور رونے کی آواز ان سے نکلنے لگی۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے پر راضی ہو گئے۔ ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا کہ میرا باپ کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ فلاں شخص تھا (اس کا نام بتا دیا) تب یہ آیت نازل ہوئی کہ ”اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر وہ ظاہر ہوں تو تم کو بری لگیں“۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1598]
حدیث نمبر: 1599
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سے سب سے بڑا قصور اس مسلمان کا ہے جس نے وہ بات پوچھی جو مسلمانوں پر حرام نہ تھی، لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام ہو گئی۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1599]
حدیث نمبر: 1600
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور فرمایا کہ میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنم میں ہیں۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1600]