سیدنا عبدالرحمن بن شماسہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس کچھ پوچھنے کو آیا، تو انہوں نے کہا کہ تو کون سے لوگوں میں سے ہے؟ میں نے کہا کہ مصر والوں میں سے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے حاکم کا تمہاری اس لڑائی میں کیا حال ہے؟ (یعنی محمد بن ابی بکر کا جن کو سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد کو معزول کر کے مصر کا حاکم کیا تھا) میں نے کہا کہ ہم نے تو ان کی کوئی بات بری نہیں دیکھی، ہم میں سے کسی کا اونٹ مر جاتا، تو اس کو اونٹ دیتے اور غلام فوت ہو جاتا تو، غلام دیتے اور خرچ کی احتیاج ہوتی، تو خرچ دیتے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ میرے بھائی کا جو حال ہوا (کہ مارا گیا اور لاش مرداروں میں پھینکی گئی پھر جلائی گئی) یہ مجھے اس امر کے بیان کرنے سے نہیں روکتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حجرہ میں فرمایا کہ اے اللہ! جو کوئی میری امت کا حاکم ہو، پھر وہ ان پر سختی کرے، تو تو بھی اس پر سختی کر اور جو کوئی میری امت کا حاکم ہو اور وہ ان پر نرمی کرے، تو بھی اس پر نرمی کر۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 1208]