سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لوگوں میں وعظ کیا اور فرمایا کہ اے لوگو! اللہ کی قسم، میں تمہارے لئے کسی اور چیز سے نہیں ڈرتا ہوں مگر اس سے جو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے دینا کی زینت نکالتا ہے۔ تو ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر کا نتیجہ شر بھی ہوتا ہے؟ (یعنی دنیا کی دولت اور حکومت کا ہونا اور اسلام کی ترقی ہونا تو خیر ہے، اس کا نتیجہ برا کیونکر ہو گا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چپ ہو رہے۔ پھر فرمایا کہ تم نے کیا کہا؟ (پھر اس کے سوال کو پوچھ لیا کہ کہیں بھول نہ گیا ہو تو مطابقت جواب کی سوال کے ساتھ اس کی سمجھ میں نہ آئے) اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر کا نتیجہ شر بھی ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں خیر کا نتیجہ تو خیر ہی ہوتا ہے۔ کیا یہ خیر ہے؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ تھا کہ یہ تو امتحان اور آزمائش ہے اور امتحان اور آزمائش میں خیر کہاں ہوتی ہے۔ پھر مثال دے کر سمجھایا کہ موسم بہار میں جو سبزہ اگتا ہے، وہ سبزہ جانور کو ہلاک کر دیتا ہے سوا ان جانوروں کے جو صرف سبزہ (ضرورت کے مطابق) کھاتے ہیں۔ وہ اس قدر کھا لیتے ہیں یہاں تک کہ ان کی کوکھیں پھول جاتی ہیں۔ پھر دھوپ میں آ کر لید یا پیشاب کرتے ہیں، جگالی کرتے ہیں اور پھر جا کر چرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پس جو شخص تو مال حق کے ساتھ لیتا ہے، تو اس میں اس کے لئے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ اور جو شخص ناحق لے گا، اس کی مثال اس جانور کی مثال ہے جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا (اور اپنی ہلاکت کا ساماں پیدا کر لیتا ہے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 566]