ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے تشریف فرما ہوئے اور میرے پاس دو (نابالغ) لڑکیاں بعاث کی لڑائی کے گیت گا رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچھونے پر لیٹ گئے اور اپنا منہ ان کی طرف سے پھیر لیا۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے جھڑکا کہ شیطان کی تان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ ان کو چھوڑ دو (یعنی گانے دو) پھر جب وہ غافل ہو گئے تو میں نے ان دونوں کو اشارہ کیا تو وہ نکل گئیں۔ وہ عید کا دن تھا اور سودانی (حبشی) ڈھالوں اور نیزوں سے کھیلتے تھے، سو مجھے یاد نہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی تھی یا انہوں نے خود فرمایا کہ کیا تم اسے دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار پر تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اے اولاد ارفدہ! تم اپنے کھیل میں مشغول رہو۔ یہاں تک کہ جب میں تھک گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بس؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا جاؤ۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 432]