الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مختصر صحيح مسلم
ایمان کے متعلق
59. اللہ کی توحید کا اقرار کرنے والوں کا جہنم سے نکلنا۔
حدیث نمبر: 87
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ جو جہنم والے ہیں (یعنی ہمیشہ وہاں رہنے کیلئے ہیں جیسے کافر اور مشرک) وہ تو نہ مریں گے نہ جئیں گے لیکن کچھ لوگ جو گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے، اللہ تعالیٰ ان پر موت طاری کرے گا یہاں تک کہ وہ جل کر کوئلہ ہو جائیں گے تو ان کے لئے شفاعت کی اجازت ہو گی اور یہ لوگ گروہ در گروہ لائے جائیں گے اور جنت کی نہروں پر پھیلائے جائیں گے اور حکم ہو گا کہ اے جنت کے لوگو! ان پر پانی ڈالو۔ تب وہ اس طرح سے اگیں گے جیسے دانہ اس مٹی میں اگتا ہے جس کو پانی بہا کر لاتا ہے۔ (یہ سن کر) ایک شخص بولا کہ گویا رسول اللہ! (معلوم ہوتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگل میں رہے ہیں (جبھی تو آپ کو یہ معلوم ہے کہ بہاؤ میں جو مٹی جمع ہوتی ہے اس میں دانہ خوب اگتا ہے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 87]
حدیث نمبر: 88
سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے آخر میں جو شخص جنت میں جائے گا، وہ ایک ایسا شخص ہو گا جو چلے گا، پھر اوندھا گرے گا اور جہنم کی آگ اس کو جلاتی جائے گی۔ جب دوزخ سے پار ہو جائے گا، تو پیٹھ موڑ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا کہ بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ (جہنم) سے نجات دی۔ بیشک جتنا اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے اتنا اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھلائی دے گا، وہ کہے گا کہ اے رب، مجھے اس درخت کے نزدیک کر دے تاکہ میں اس کے سایہ میں رہوں اور اس کا پانی پیوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو تو اور بھی سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں اے میرے رب! اور عہد کرے گا کہ پھر میں کوئی سوال نہ کروں گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا اس لئے کہ وہ ایسی نعمت کو دیکھے گا جس پر اس سے صبر نہیں ہو سکتا (یعنی انسان بے صبر ہے جب وہ تکلیف میں مبتلا ہو اور عیش کی بات دیکھے تو بے اختیار اس کی خواہش کرتا ہے)۔ آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا اور وہ اس کے سایہ میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک اور درخت دکھلائی دے گا، جو اس سے بھی اچھا ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے پروردگار مجھے اس درخت کے نزدیک پہنچا دے تاکہ میں اس کے سائے میں جاؤں اور اس کا پانی پیوں اور میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! کیا تو نے عہد نہیں کیا تھا کہ میں پھر سوال نہ کروں گا؟ اور اگر میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں، تو پھر تو اور سوال کرے گا۔ وہ اقرار کرے گا کہ نہیں پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ اس کو اس نعمت پر، جو وہ (شخص) دیکھتا ہے، صبر نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا، وہ اس کے سائے میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھائی دے گا جو جنت کے دروازے پر ہو گا اور وہ پہلے کے دونوں درختوں سے بہتر ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دے تاکہ میں اس کے نیچے سایہ میں رہوں اور وہاں کا پانی پیوں، اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! کیا تو اقرار نہ کر چکا تھا کہ اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا؟ وہ کہے گا کہ بیشک میں اقرار کر چکا تھا، لیکن اب میرا یہ سوال پورا کر دے، پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ وہ ان نعمتوں کو دیکھے گا جن پر وہ صبر نہیں کر سکتا۔ آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے پاس کر دے گا۔ جب وہ اس درخت کے پاس جائے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! تیرے سوال کو کون سی چیز پورا کرے گی؟ (یعنی تیری خواہش کب موقوف ہو گی اور یہ باربار سوال کرنا کیسے بند ہو گا) بھلا تو اس پر راضی ہے کہ میں تجھے ساری دنیا کے برابر دے کر اتنا ہی اور دوں؟ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! تو سارے جہاں کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ہنسنے لگے اور لوگوں سے کہا کہ تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنستا ہوں؟ لوگوں نے پوچھا کہ تم کیوں ہنستے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (اس حدیث کو بیان کر کے) اسی طرح ہنسے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ رب العالمین کے ہنسنے سے، میں بھی ہنستا ہوں جب وہ بندہ یہ کہے گا کہ تو سارے جہان کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ تو پروردگار ہنس دے گا (اس کی نادانی اور بیوقوفی پر) اور اللہ فرمائے گا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا (مذاق کرنا میرے لائق نہیں وہ بندوں کے لائق ہے) بلکہ میں جو چاہتا ہوں کر سکتا ہوں۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 88]
حدیث نمبر: 89
ابوالزبیر نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے قیامت کے دن لوگوں کے آنے کے حال کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم قیامت کے دن اس طرح سے آئیں گے یعنی یہ اوپر سب آدمیوں کے۔ پھر سب امتیں اپنے اپنے بتوں اور معبودوں کے ساتھ پکاری جائیں گی۔ پہلی امت، پھر دوسری امت۔ اس کے بعد ہمارا پروردگار آئے گا اور فرمائے گا کہ تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ (یعنی امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمائے گا) وہ کہیں گے کہ ہم اپنے پروردگار کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہارا مالک ہوں، وہ کہیں گے ہم تجھ کو دیکھیں گے تو تب (معلوم ہو گا) پھر اللہ ان کو ہنستا ہوا دکھائی دے گا اور ان کے ساتھ چلے گا اور سب لوگ اس کے پیچھے ہوں گے اور ہر ایک آدمی کو خواہ وہ منافق ہو یا مومن، ایک نور ملے گا۔ لوگ اس کے ساتھ ہوں گے اور جہنم کے پل پر آنکڑے اور کانٹے ہوں گے، وہ پکڑ لیں گے جن کو اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد منافقوں کا نور بجھ جائے گا اور مومن نجات پائیں گے۔ تو پہلا گروہ مومنوں کا (جو ہو گا) ان کے منہ چودھویں رات کے چاند کے سے ہوں گے (وہ گروہ) ستر ہزار آدمیوں کا ہو گا جن سے حساب و کتاب نہ ہو گا۔ ان کے بعد گروہ خوب چمکتے ستارے کی طرح ہوں گے۔ پھر ان کے بعد کا ان سے کم، یہاں تک کہ شفاعت کا وقت آ جائے گا اور لوگ شفاعت کریں گے اور جہنم سے وہ شخص بھی نکالا جائے گا جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر بھی نیکی اور بہتری تھی۔ یہ لوگ جنت کے صحن میں ڈال دئیے جائیں گے اور جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکیں گے (جس سے) وہ اس طرح اگیں گے جیسے جھاڑ پانی کے بہاؤ میں اگتا ہے۔ اور ان کی سوز جلن بالکل جاتی رہے گی۔ پھر وہ اللہ سے سوال کریں گے اور ہر ایک کو اتنا ملے گا جیسے ساری دنیا بلکہ اس کے ساتھ دس گنا اور بھی۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 89]
حدیث نمبر: 90
یزید بن صہیب فقیر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات کھب گئی تھی (اور وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جو جہنم میں جائے گا وہ پھر وہاں سے نہ نکلے گا)، تو ہم ایک بڑی جماعت کے ساتھ اس ارادے سے نکلے کہ حج کریں۔ پھر خارجیوں کا مذہب پھیلائیں گے۔ جب ہم مدینے میں پہنچے تو دیکھا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ایک ستون کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنا رہے ہیں۔ یکایک انہوں نے دوزخیوں کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ اے صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تم کیا حدیث بیان کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اے ہمارے پالنے والے! تو جسے جہنم میں ڈالے، یقیناً تو نے اسے رسوا کیا (آل عمران: 192) نیز جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے (السجدہ: 20)۔ اور اب یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ تو نے قرآن پڑھا ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے پھر کہا کہ کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سنا ہے (یعنی وہ مقام جو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز عنایت فرمائے گا)؟ میں نے کہا جی ہاں! میں نے سنا ہے۔ انہوں نے کہا یہ ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں چاہے گا، جہنم سے نکالے گا۔ پھر انہوں نے پل صراط کا حال اور اس پل پر سے لوگوں کے گزرنے کا حال بیان کیا اور اور مجھے ڈر ہے کہ شاید مجھے یاد نہ رہا ہو مگر انہوں نے یہ کہا کہ کچھ لوگ دوزخ میں جانے کے بعد اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ اس طرح نکلیں گے جیسے آبنوس کی لکڑیاں (سیاہ جل بھن کر)۔ پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے۔ یہ سن کر ہم لوٹے اور ہم نے کہا کہ تمہاری خرابی ہو! کیا یہ بوڑھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے؟ (یعنی وہ ہرگز جھوٹ نہیں بولتا، پھر تمہارا مذہب غلط نکلا)۔ اور ہم سب اپنے مذہب سے پھر گئے مگر ایک شخص نہ پھرا۔ یا جیسا ابونعیم فضل بن دکین (امام مسلم کے استاذ کے استاذ) نے بیان کیا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 90]
حدیث نمبر: 91
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوزخ سے چار آدمی نکالے جائیں گے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے کئے جائیں گے۔ ان میں سے ایک جہنم کی طرف دیکھ کر کہے گا کہ اے میرے مالک! جب تو نے مجھے اس (جہنم) سے نجات دی ہے، تو اب پھر اس میں مت لے جانا۔ اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے نجات دیدے گا۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 91]