سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب مجھ سے زبیر رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا تو ان کے پاس کچھ مال نہ تھا نہ زمین تھی نہ لونڈی غلام تھے اور بجز پانی لانے والے اونٹ اور گھوڑے وغیرہ کے کچھ نہ تھا۔ میں ان کے گھوڑے کو چراتی تھی اور پانی پلاتی تھی اور ان کا ڈول سیتی تھی اور آٹا گوندھتی تھی اور میں روٹی پکانا نہ جانتی تھی اور میری روٹی انصاری پڑوسنیں پکا دیتی تھیں، وہ بڑی نیک بخت عورتیں تھیں اور میں زبیر رضی اللہ عنہ کی اس زمین سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دی تھی اپنے سر پر کھجوروں کی گٹھلیاں اٹھا کر لاتی تھی اور وہ جگہ مجھ سے دو میل دور تھی۔ ایک روز میں اپنے سر پر گٹھلیاں رکھے آ رہی تھی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چند اصحاب تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا، پھر مجھے اپنے پیچھے بٹھانے کے واسطے اونٹ کو اخ اخ کہا۔ مجھے مردوں کے ساتھ چلنے میں شرم آئی اور زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت مجھے یاد آئی کہ بڑے غیرت دار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہچان گئے کہ اسماء کو شرم آتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل دیے میں نے زبیر رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملے تھے۔ میرے سر پر گٹھلیاں کا بوجھ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صحابہ رضی اللہ عنہم تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بٹھانے کے واسطے اونٹ کو ٹھہرایا، مجھے اس سے شرم آئی اور تمہاری غیرت کو میں جانتی ہوں، وہ بولے ”واللہ! مجھے تیرے سر پر گٹھلیاں لاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھنا آپ کے ساتھ سوار ہو جانے سے زیادہ ناگوار ہوا۔ بعدازاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرے لیے ایک خادم بھیج دیا، وہ گھوڑے کی نگہبانی کرنے لگایا گویا کہ انھوں نے مجھے آزاد کر دیا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1865]
حدیث نمبر: 1866
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ غیرت کرتا ہے اور اللہ کو اس بات پر غیرت آتی ہے کہ کوئی (بندہ) مومن وہ کام کرے جسے اللہ نے حرام کیا ہے“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1866]