1. اللہ تعالیٰ کا قول ”اے ان لوگوں کی اولاد! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کر دیا تھا، وہ ہمارا بڑی ہی شکرگزار بندہ تھا“ (سورۃ الاسراء: 3)۔
حدیث نمبر: 1751
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پکا ہوا گوشت لایا گیا تو دستی کا گوشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر دیا گیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دانتوں سے پکڑا اور تناول فرمانے لگے، پھر فرمایا: ”میں قیامت کے دن سب کا سردار ہوں، آیا تم جانتے ہو کہ کس وجہ سے؟ اس لیے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلے پچھلے آدمیوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرے گا اور (وہ میدان ایسا ہموار ہو گا کہ) پکارنے والا اپنی آواز ان کو سنا سکے اور دیکھنے والا ان سب کو دیکھ سکے گا، سورج بہت قریب ہو گا، اس وقت لوگوں کو ایسی ناقابل برداشت تکلیف اور غم ہو گا کہ جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔ اس وقت لوگ آپس میں کہیں گے کہ دیکھو کیسی تکلیف ہو رہی ہے، کوئی سفارشی شفیع تلاش کرو جو پروردگار کے پاس تمہاری کچھ سفارش کرے۔ بعض کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلو تو سب کے سب ان کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ تمام آدمیوں کے باپ (ابوالبشر) ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے مبارک ہاتھوں سے بنایا ہے اور اپنی روح آپ میں پھونکی ہے اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا ہے، آپ ہماری شفاعت کیجئیے۔ دیکھئیے ہمیں کیسی تکلیف ہو رہی ہے اور ہمارا کیا حال ہو رہا ہے۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ آج میرا رب اتنے غصہ میں ہے کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا غصہ ہوا ہو گا اور نہ اس کے بعد ایسا غصے میں آئے گا اور مجھے اس درخت کے پھل سے منع کیا تھا لیکن میں نے (کھا لیا اور) نافرمانی کی اور نفسی نفسی نفسی (مجھے تو خود اپنی پڑی ہے) کہیں گے، اور پھر کہیں گے کہ تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوح کے پاس جاؤ۔ پھر وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ تم سب سے پہلے زمین پر نبی بن کر آئے ہو، اللہ نے تمہارا نام عبداً شکوراً (شکرگزار بندہ) رکھا ہے، ہماری شفاعت کرو، ہمارا حال نہیں دیکھتے کہ کس تکلیف میں مبتلا ہیں؟ وہ کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ اتنا غصے میں ہے کہ نہ تو ایسا پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد ہو گا اور میرے واسطے ایک دعا کا حکم تھا کہ وہ مقبول ہو گی وہ میں اپنی امت کے لیے مانگ چکا (وہ مقبول دعا اپنی قوم پر بددعا کی شکل میں کر چکا ہوں جس سے وہ ہلاک ہو گئی تھی) اور نفسی نفسی (مجھے تو اپنی بھی فکر ہے) کہیں گے، اور کہیں گے کہ کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ تو سب ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ اللہ کے نبی اور ساری زمین والوں میں اس کے خلیل (جانی دوست) ہیں آپ پروردگار کے ہاں ہماری شفاعت کیجئیے ہمارا حال نہیں دیکھتے کیسا خراب ہو رہا ہے؟ وہ کہیں گے کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ بہت غصے میں ہے اتنا غصے میں کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے (پھر کہیں گے) نفسی نفسی نفسی (مجھے تو اپنی پڑی ہے)، تم میرے علاوہ کسی دوسرے کے پاس جاؤ، اچھا موسیٰ کے پاس جاؤ تو وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ اور کہیں گے کہ اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رسالت اور کلام سے تمام لوگوں پر فضیلت و بزرگی دی ہے، آپ پروردگار سے ہماری سفارش کیجئیے، دیکھئیے ہماری کیسی (بری) حالت ہے تو وہ بھی یہی کہیں گے کہ آج تیرا رب بہت غصے میں ہے، اتنا غصے میں کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور (مجھ سے ایک گناہ ہوا تھا) میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں ملا تھا، پھر کہیں گے نفسی نفسی نفسی (مجھے تو اپنی پڑی ہے)، تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ (ایسا کرو کہ) تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ تو لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا وہ کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم علیہ السلام کی طرف ڈالا تھا اور اس کی روح ہیں اور آپ نے گود میں رہ کر بچپن میں لوگوں سے باتیں کی ہیں، آپ ہمارے لیے شفاعت کیجئیے (کہ اللہ ہم کو اس میدان حشر کی ہولناکیوں سے نجات دے) دیکھئیے ہم کیسی (بری) حالت میں ہیں تو عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غصے میں ہے، اتنا غصے میں کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا، پھر وہ اس کے بعد اپنا کوئی گناہ بیان نہ کریں گے، وہ بھی نفسی نفسی نفسی (مجھے تو اپنی فکر دامن گیر ہے) کہیں گے اور کہیں گے کہ تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ (میرے خیال میں) تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ تو وہ لوگ محمد کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الابنیاء ہیں، اور بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے ہیں، اللہ سے ہماری شفاعت کیجئیے، دیکھئیے تو سہی کہ ہمیں کیسی تکلیف ہے۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ): ”میں یہ سنتے ہی (میدان حشر سے) چلوں گا اور عرش کے نیچے آ کر سجدے میں گر پڑوں گا، اللہ تعالیٰ اپنی تعریف اور خوبی کی وہ وہ باتیں میرے دل میں ڈال دے گا (میری زبان سے نکلوائے گا) جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں بتلائیں، پھر حکم ہو گا کہ اے محمد! سر اٹھا اور مانگ جو مانگے گا دیا جائے گا جس کی سفارش کرے گا قبول کی جائے۔ میں سر اٹھا کر عرض کروں گا اے میرے رب! میری امت پر رحم فرما، اے میرے رب میری امت پر رحم فرما، اے رب! میری امت پر رحم فرما۔ حکم ہو گا کہ اے محمد! اپنی امت میں سے جن لوگوں پر کوئی حساب کتاب نہیں ان کو جنت کے داہنے دروازے سے داخل کرو اور انھیں یہ بھی اختیار ہے کہ دوسرے لوگوں کی طرح اس دروازے کے علاوہ باقی دروازوں سے بھی جا سکتے ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت کے ایک دروازے کی چوڑائی ایسی ہے۔ جیسے مکہ اور حمیر (یعنی صنعاء جو یمن کا دارالحکومت ہے) کے درمیان کا فاصلہ یا مکہ اور بصریٰ (ملک شام) کے درمیان کا فاصلہ۔ (راوی کو شک ہے)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1751]