9. ابورافع یہودی عبداللہ بن ابی الحقیق کے قتل کا بیان اور بعض نے کہا کہ اس کا نام سلام بن ابی الحقیق ہے۔
حدیث نمبر: 1617
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند انصار کو ابورافع یہودی کے پاس بھیجا اور ان پر سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا اور ابورافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذا دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقصان پر کمربستہ رہتا تھا اور وہ اپنے اس قلعہ میں جو حجاز میں تھا، رہتا تھا۔ جب یہ لوگ اس کے قریب پہنچے، اس وقت سورج ڈوب چکا تھا اور لوگ اپنے مویشیوں کو شام کے وقت واپس لا چکے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم یہاں بیٹھو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل ملا کر قلعہ کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں۔ پھر وہ قلعہ کی طرف چلے، یہاں تک کہ دروازہ کے قریب پہنچ گئے۔ پھر اپنے آپ کو کپڑے میں اس طرح چھپایا جیسے کوئی قضائے حاجت کے لیے بیٹھتا ہے۔ قلعہ والے اندر جا چکے تھے۔ دربان نے عبداللہ کو آواز دی کہ اے اللہ کے بندے! اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ، کیونکہ میں دروازہ بند کرتا ہوں۔ میں اندر چلا گیا۔ جب سب آ چکے، دربان نے دروازہ بند کر کے کنجیاں کھونٹی پر لٹکا دیں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کنجیاں لینے کا ارادہ کیا پھر انھیں لے کر دروازہ کھولا۔ ابورافع کے پاس کہانیاں ہوا کرتی تھیں اور وہ اپنے بالاخانے پر رہتا تھا۔ جب اس کے پاس سے کہانی والے چلے گئے تو میں بالاخانے پر چڑھا۔ میں جب کوئی دروازہ کھولتا تو اندر کی جانب سے بند کر لیتا اور (اپنے دل میں کہتا کہ) اگر لوگ مجھ سے واقف بھی ہو جائیں گے تو مجھ تک ابورافع کے مارنے سے پہلے نہ آ سکیں گے۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ایک اندھیرے مکان میں اپنے بچوں میں سو رہا ہے۔ مجھے اس کا ٹھکانہ معلوم نہ تھا۔ میں نے ابورافع کہہ کر آواز دی، اس نے جواب دیا کون ہے؟ میں آواز کی طرف لپکا اور آواز پر تلوار کی ایک ضرب لگائی، میرا دل دھک دھک کر رہا تھا، وار خالی گیا اور وہ چلانے لگا۔ میں مکان سے نکل کر تھوڑی دیر بعد پھر اندر گیا اور میں نے (آواز بدل کر) کہا کہ اے ابورافع! یہ کیسی آواز تھی؟ اس نے کہا کہ تیری ماں پر مصیبت پڑے، کسی نے ابھی ابھی مجھے تلوار ماری تھی۔ یہ سنتے ہی میں نے ایک بڑا وار کیا اگرچہ اب اس کو کاری زخم آ چکا تھا۔ لیکن وہ مرا نہیں تھا آخر میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھی اور زور سے دبایا تو تلوار اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ جب مجھے یقین ہوا کہ میں نے اسے مار دیا تو پھر میں ایک ایک دروازہ کھولتا جاتا۔ سیڑھیوں پر پہنچ کر اتر رہا تھا، میں نے سمجھا کہ اب زمین آ گئی، چاندنی رات میں (دھم سے) نیچے گر پڑا اور میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں اسے اپنے عمامہ سے پٹی باندھ کر نکلا اور دروازہ پر یہ کہہ کر بیٹھ گیا کہ آج رات اس وقت تک نہ نکلوں گا جب تک میں یہ نہ جان لوں کہ کیا میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ جس وقت مرغ نے اذان دی تو اس وقت ناعی (موت کی خبر سنانے والا) دیوار پر کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ میں ابورافع، اہل حجاز کے سوداگر کے مرنے کی خبر سناتا ہوں۔ پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے آ کر کہا کہ جلدی چلو، اللہ نے ابورافع کو قتل کرا دیا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر یہ قصہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا پاؤں پھیلاؤ۔ میں نے اپنا پاؤں پھیلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ ایسا ہو گیا جیسے مجھے کبھی اس کی شکایت ہی نہ تھی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1617]