نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل مناقب
26. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا: ”ان (انصار) کی اچھائی، نیکی کو قبول کرو اور ان کی برائی سے درگزر کرو۔
حدیث نمبر: 1565
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس پر سے گزرے اور وہ (مجلس والے) لوگ رو رہے تھے۔ (سیدنا ابوبکر یا عباس رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ انھوں نے کہا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے (ہمارے) ساتھ بیٹھنا یاد آیا (اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا تھے) پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (انصار کا حال) بیان کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر پر چادر کا حاشیہ باندھا ہوا تھا پھر منبر پر چڑھے اور اس دن کے بعد (منبر پر) نہیں چڑھ سکے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی) پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”میں تمہیں انصار (سے اچھا سلوک کرنے) کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، بیشک وہ میرے جان و جگر ہیں، ان پر جو (میرا) حق تھا وہ ادا کر چکے، اب ان کا حق (جنت کا ملنا) باقی ہے پس ان کی نیکی (اچھائی) کو قبول کرنا اور ان کی برائی سے درگزر کرنا۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1565]
حدیث نمبر: 1566
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں کندھوں کو چادر سے ڈھانپے ہوئے باہر نکلے اور اپنے سر کو ایک چکنے کپڑے کی پٹی سے باندھے ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا: ”اے لوگو! بیشک (دوسرے) لوگ بہت زیادہ تعداد میں ہو جائیں گے اور انصار کم ہوتے جائیں گے، یہاں تک کہ کھانے میں نمک کے برابر رہ جائیں گے پھر تم میں سے جس کسی کو ایسی حکومت ملے کہ وہ نفع یا نقصان پہنچا سکے تو اسے چاہیے کہ وہ ان کی نیکی، اچھائی کو قبول کرے اور برائی سے درگزر کرے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1566]