4. اگر کوئی شخص اپنے دوست کو ہدیہ دے اور اس کی بعض بیویوں کو نظرانداز کر کے بعض بیویوں (کی باری) کا انتظار کرے (تو کیسا ہے؟)۔
حدیث نمبر: 1158
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں دو گروہ تھے، ایک گروہ وہ تھا جس میں ام المؤمنین عائشہ، حفصہ، صفیہ اور سودہ رضی اللہ عنہا تھیں اور دوسرا گروہ وہ تھا جس میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی بیویاں تھیں اور مسلمانوں کو یہ معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا (صدیقہ طیبہ طاہرہ) سے ہے پس جب ان میں سے کسی کے پاس کچھ ہدیہ ہوتا اور وہ چاہتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے تو وہ اس کو روک لیتا یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ہوتے تو ہدیہ پہچانے والا اپنے ہدیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ام المؤمنین عائشہ کے گھر میں پہنچاتا۔ اس پر ام المؤمنین ام اسلمہ رضی اللہ عنہا کے گروہ نے (اس بارے میں) گفتگو کی اور ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ پہچانا چاہے تو چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی کے پاس ہوں پہنچا دے پس ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ ان (کے ساتھ والی) بیویوں نے کہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کچھ جواب نہیں دیا پھر ان ازواج نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے جواب دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ مجھے کچھ جواب نہیں ملا۔ چنانچہ ازواج مطہرات نے ان سے کہا کہ تم پھر کہو۔ جب ان کی دوبارہ باری آئی تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان کو کچھ جواب نہ دیا۔ (ہم خیال) ازواج مطہرات نے پھر ان سے پوچھا کہ کوئی جواب ملا؟ تو انھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو کچھ جواب نہیں دیا پھر ان بیویوں نے ان سے کہا کہ تم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ جواب دیں چنانچہ جب ان کی باری تھی تو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھے عائشہ (رضی اللہ عنہا کی محبت) کے بارے میں نہ ستاؤ، اس لیے کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے علاوہ اور جس بیوی کے پاس میں ہوتا ہوں تو مجھ پر کسی کی چادر میں وحی نہیں آتی۔“ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے سے اللہ عزوجل سے توبہ کرتی ہوں۔ اس کے بعد ان بیویوں نے سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی) کو بلایا اور ان کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے بارے میں انصاف کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا واسطہ دیتی ہیں۔“ چنانچہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بیٹی! کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتی جس کو میں پسند کرتا ہوں۔“ انھوں نے کہا کہ ہاں (میں یقیناً اسی کو پسند کرتی ہوں) پس سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا ان کے پاس لوٹ کر گئیں اور ان سے بیان کر دیا۔ ان ازواج نے ان سے کہا کہ تم پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ مگر انھوں نے دوبارہ جانے سے انکار کر دیا۔ پھر ان ازواج مطہرات نے ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کو بھیجا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انھوں نے سخت گفتگو کی اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا واسطہ دیتی ہیں کہ ابن ابی قحافہ کی بیٹی (یعنی المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا) کے بارے میں انصاف کیجئیے اور انھوں نے اپنی آواز بلند کر لی یہاں تک کہ انھوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کی موجودگی میں انھیں سخت سست کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ (کچھ) کہتی ہیں یا نہیں (راوی کہتا ہے کہ) ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں جواب دینا شروع کیا یہاں تک کہ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کو خاموش کر دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”آخر کیوں نہ ہو! وہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی بیٹی ہیں۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1158]